لقوہ اور فالج کیا ہے اسکے اسباب و علاج

لقوہ اور فالج کیا ہے اسکے اسباب و علاج


لقوہ کا تعلق اعصاب سے ہے ۔ یہ تنہا اُم الدماغ کی وجہ سے نہیں ہوتا دماغ کے خلیوں کی درمیانی رو جب ایکطرف زور ڈالتی ہے


اور اس کا تصرف چہرہ کی کسی سمت ہو جاتا ہے تو چہرے کے مفصلات کو ٹیڑھا کر دیتا ہے ۔ اس کا اثر براہ راست کانوں


آنکھوں ، ناک اور جبڑے پر پڑتا ہے ۔ بعض اوقات بینائی بھی اس سے متاثر ہو جاتی ہے۔ ناک کی ہڈیاں بھی ٹیڑھی ہو جاتی ہیں او


جبڑے کا جو حصہ دانتوں کو سنبھالے ہوئے ہے وہ بھی متاثر ہو جاتا ہے ۔



لقوہ اور فالج کے بارے میں عام غلط فہمیاں


لقوہ یا فالج جتنی عام حالت ہے ہمارے سماج میں اس کے سلسلے میں اسی قدر تجاہل بھی پایا جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے ’ہوا میں


آگیا کوئی کہتا ہے سردی لگ گئی‘ کسی کا گمان ہے مریض کے اوپر سے سانپ گذر گیا، اردھنگ ہو گیا ہے، اور نہ جانے کیا کیا!... پھر


اس کا علاج مالش اور کبھی کبھار جنگلی کبوتر کے خون سے مالش وغیرہ سے کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے... لیکن ہمارا تجربہ


ایسا ہے کہ بہت کم لوگ ڈاکٹروں یا اطباء کی اس بات کو فی الفور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ چند کہنہ تکالیف کو مسلسل اور طویل عرصہ تک


نظرانداز کر تے رہنے کا انجام ہے۔ ان تکلیفوں میں سب سے عام ہے ’’ہائی بلڈ پریشر۔ فالج یا لقوہ اصل میں پہلے سے موجود چند امراض


کی پیچیدگی کی شکل ہے۔ اس میں جسم کا دایاں یا بایاں کوئی بھی نصف حصہ بے قوت ہو جاتا ہے اور اسی لیے متاثرہ جانب کے پٹھے


(عضلات) اپنا فعل انجام نہیں دے سکتے۔ ان میں قوت باقی نہیں رہ جاتی۔ لفظ لقوہ شاید عربی کے ’لاقوّۃ‘ کی اردو میں مستعمل شکل ہے۔


مالش وغیرہ کا معاملہ اصل میں قدیم طبی تدابیر میں نظر آتا ہے۔ چونکہ قدیم دور میں تحقیقی وسایل نہیں تھے اس لیے دماغ کے متعلق


زیادہ تفصیلی معلومات نہیں تھیں۔ اُس وقت یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ یہ مقامی طور پر بدن کے عضلات کا ڈھیلا پن ہے، ان کے خون کی


سپلائی متاثر ہوئی ہے اس لیے دَلک (مالش) کے ذریعہ رگوں کو کھولا جائے۔ اسٹروک کے عارضہ کو بھی اُن کتابوں میں استرخائے


عضلات (پٹھوں کا ڈھیلا ہو جانا) لکھا گیا ہے۔ جدید تحقیقات، جن میں سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کا بڑا رول ہے، نے اسٹروک کی اصل


کیفیت کو اظہر من الشمس کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں اب قیاسات کے لیے جگہ نہیں رہ گئی ہے۔ لقوہ کے تعلق سے یہ بات صاف ہو چکی


ہے کہ اس میں ہاتھ پیروں کے عضلات میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے نہ نیچے کے اعصاب ہی متاثر ہوتے ہیں. بلکہ سارا معاملہ دماغ کے اندر


پیش آتا ہے



تعارف


طبی زبان میں لقوہ کو اسٹروک یا سیریبرو ویسکولر ایکسیڈنٹ ) اور ہیمی پلیجیا  بھی کہتے ہیں۔ جدید دور میں ایک نئی اصطلاح


بھی استعمال ہوتی ہے یعنی ’’برین اٹیک‘‘ جیسے ہارٹ اٹیک؛ کیونکہ دونوں کی نوعیت ایک ہی ہے۔ اس کی تحقیق کے بعد یہ بات


سامنے آئی ہے کہ دماغ کے بڑے حصوں کو خون کی سپلائی کرنے والی شریان (رگ کو مڈل سیریبرل آرٹری کہتے ہیں۔ اُس کے


اچانک مسدود ہو جانے یا پھٹ جانے کی وجہ سے دماغ کا متعلقہ حصہ خون کی سپلائی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کا تغذیہ


متاثر ہو جاتا ہے۔ اسی سبب وہ حصہ مردہ ہو جاتا ہے اور وہاں موجود تمام مراکزِ افعالِ بدن بھی تباہ اور ختم ہو جاتے ہیں۔ پھر جسم


کے افعال پر سے دماغ کا کنٹرول اٹھ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک جانب جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ دماغ کی دائیں جانب کی شریان


 اگر پھٹ جائے یا مسدود ہو جائے تو بائیں جانب کا جسم مفلوج ہوتا ہے اور اگر بائیں جانب کی شریان متاثر ہو تو دائیں جانب کا


جسم مفلوج ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دماغ سے نکلنے والی نسیں اور ریشے دماغ کے نچلے حصے میں ایک دوسرے کو


قطع کرتے ہوئے سائیڈ تبدیل کرلیتے ہیں۔ دائیں حصے والے ریشے بائیں جانب جاتے ہیں اور بائیں جانب والے دائیں جانب کو۔ البتہ


چہرے پر اسی جانب اثر ہوتا ہے جس جانب کی شریان متاثر ہوتی ہے کیونکہ چہرے پر آنے والے عصبی ریشے قطع سے پہلے ہی


نکلتے ہیں۔ اسٹروک ایک طبی ایمرجنسی ہے۔ اگر مریض کی فوری اور بروقت طبی امداد نہ کی جائے تو اس کے ساتھ عصبی تکالیف


تا حیات لگی رہ جاتی ہیں۔کبھی کبھار شدید حملہ میں مریض فوت بھی ہو جاتا ہے۔مردوں میں عورتوں کی نسبت فالج تین گنا زیادہ


ملتا ہے اور عموماً پچاس برس سے زیادہ کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ عام طور پر ستّر اور اسّی سال کی عمر والوں میں


زیادہ دیکھا جاتا ہے۔




[caption id="attachment_1124" align="aligncenter" width="150"]لقوہ اور فالج کیا ہے اسکے اسباب و علاج لقوہ اور فالج کیا ہے اسکے اسباب و علاج[/caption]

اسباب 


جیسا کہ اوپر تمہیدی سطروں میں لکھا گیا ہے کہ سب سے زیادہ کیس ہائی بلڈپریشر کا علاج نہ کرنے یا ناقص انداز میں کرنے سے


ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے کیس میں طویل عمر، ذیابیطس، سگریٹ نوشی، ہائی کولیسٹرول، آدھے سر کا درد (شقیقہ 


مائیگرین) ، اور رگوں میں خون کے جم جانے سے بھی ایسا ہوتا ہے۔



لقوہ اور فالج کی علامات


فالج کی علامات بہت تیزی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں یعنی محض چند سیکنڈوں یا منٹوں میں۔ علامات کا پھیلاؤ اور شدت اس بات پر


منحصر ہے کہ شریان کا کتنا اور کون سا حصہ ؛ پھر وہ بھی کس درجہ میں متاثر ہے۔ اسی لیے ہر مریض میں علامات کم یا بیش ہو


سکتی ہیں۔



لقوہ اور فالج کےاسباب و وجوہات 


لقوہ اپنی وجوہات کی بنا پر دو قسم کا ہوتا ہے۔ اوّل یہ کہ دماغ کی شریان میں کسی وجہ سے سدّہ (رکاوٹ)  پیدا ہو جائے جیسے


خون کا چھوٹا سا لوتھڑا  جم جائے یا ایسا ہی منجمد خونt یا ہوا کا بلبلہ یا چربی کا ٹکڑا یا کینسر کے خلیات وغیرہ خون کے ساتھ


گردش میں آ جائیں یا پھر خون میں کسی وجہ سے آکسیجن کی مقدار ِ شمولیت کم ہوتی ہو، تو فالج واقع ہوتا ہے؛ اور دوم یہ کہ


دماغ کی شریان کسی سبب پھٹ جائے اور خون اس سے باہر نکل آئے اور راستہ مسدود کردے۔


انہی اسباب کے پیشِ نظر لقوہ کے مریضوں میں وقت اور نشانیاں مختلف ملتی ہیں۔ لیکن عموماً ایک جانب کے عضلاتِ بدن بالکل


ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور ان میں قوت نہیں ملتی، مریض کو جھنجھناہٹ کا احساس رہتا ہے ۔ دماغ سے نکلنے والے اعصاب کے افعال


بھی متاثر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سونگھنے، سماعت، ذائقہ اور دیکھنے میں مریض کو تکلیف ہونے لگتی ہے، آنکھیں کھولنے


اور بات کرنے یا نگلنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے، ایک جانب چہرے کے عضلات لٹک جاتے ہیں، مریض اپنے طور پر روزانہ کے


معمولات انجام نہیں دے سکتا اور خود سے کھڑا نہیں ہو سکتا، گردن نہیں گھما سکتا، اسی قسم کی کئی اور اعصابی علامات پائی


جاتی ہیں اور اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض بے ہوش و حواس ہو جاتا ہے۔



لقوہ اور فالج کےٹیسٹ 


 گو کہ اسٹروک کی جانچ کلّی طور پر معالج کے اپنے مشاہدے اور معائنہ پر مبنی ہے لیکن اسباب کی تحقیق و تفتیش کے لیے


عکاسی کی مدد لی جاتی ہے اور اس میں سب سے اہم ذرائع سی ٹی اسکین، سی ٹی اینجیوگرافی اور ایم آر آئی ہیں۔ دماغی شریانوں


کی جانکاری حاصل کرنے کے لیے ڈاپلرالٹراسونوگرافی بھی کروائی جاتی ہے۔ دل کے امراض کی بھی تحقیق لازمی ہوتی ہے اس لیے


مریض کا الیکٹروکارڈیوگرام بھی نکالا جاتا ہے۔



لقوہ اور فالج کےمختلف علاج 


 جس قدر جلد ممکن ہو اسٹروک کی تشخیص کے ساتھ ہی علاج شروع کرنا مریض کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے مریض کی


علامات کو کم سے کم کرنے کی تدبیر و امداد کی جاتی ہے۔ ان تدابیر کی بنیادی فکر یہ ہوتی ہے کہ مریض نفسیاتی اور سماجی طور


سے خود کو ایڈجسٹ کر سکے۔ اسٹروک کے سبب کی تفتیش ہوتے ہی اس کے ازالے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ جمے ہوئے خون


کو پتلا کر کے نکالنے کی دوائیں دی جاتی ہیں۔ اگر خون رگوں سے خارج ہوا ہے تو مشینی جراحتی عمل (نیوروسرجری)  کے


ذریعہ اس کو نکالنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔



لقوہ اور فالج کا دیسی علاج


 گنٹھیا.ریح کے درد.نمونیا.بھوک نہ لگنا. جسم میں حرارت غریزی کی کمی‘ لقوہ‘ بلغمی امراض‘ بلڈپریشر زیادہ اہم ہیں۔ یہ معجون


جسم میں طاقت پیدا کرتی ہے۔



معجون کا طریقہ


لہسن کا مغز چھ چھٹانک چھاچھ میں بھگو دیں تاکہ لہسن کی بوختم ہوجائے پھر چھ سیر دودھ ملا کر اسے نرم آگ پر پکایا جائے


اور ساتھ ساتھ چمچہ ہلاتے رہیں۔ جب پورا دودھ کھویا بن جائے تو اس میں سونٹھ‘ کالی مرچ‘ الائچی خورد‘ دار چینی


ناگ کیسر‘ ہلدی‘ بابڑنگ‘ دارہلد‘ پپلامول‘ اسگند‘ بدھارا‘ سنامکی‘ گوکھرو‘ سونف‘ لونگ‘ اجوائن‘ تج‘ کچور اور تخم کونچ ہر ایک


چھ ماشہ سفوف بنا کراس میں شامل کریں۔ اس کے علاوہ ادویہ کے وزن سے تین گنا شہد ملالیں۔ معجون تیار ہے۔ دو تولہ معجون


صبح‘ شام ہمراہ پانی نیم گرم استعمال کریں۔ یہ معجون صرف سردیوں میں استعمال کرنی چاہیے۔ لہسن کا خالی کھویا بھی بہت مفید


ہوتا ہے۔ مقدار خوراک: ایک چمچہ صبح و شام۔



لقوہ اور فالج کاہومیو پیتھک علاج


[caption id="attachment_1126" align="aligncenter" width="150"]desiherbal.comلقوہ اور فالج کا ہومیو پیتھک علاج ہ لقوہ اور فالج کا ہومیو پیتھک علاج[/caption]

[caption id="attachment_1125" align="aligncenter" width="150"]desiherbal.com-falij aur lakwa ka illaj desiherbal.com-falij aur lakwa ka illaj[/caption]

فزیوتھیراپی سے علاج


جب مریض کسی قابل ہوجاتا ہے تو اس کے لیے مشقی ورزشیں (فزیوتھیراپی) سکھائی جاتی ہیں جن پر مریض کی تیمارداری پر


مامور فرد یا افراد کو زیادہ دھیان دینا پڑتا ہے۔ نگلنے، بولنے، کھڑا رہنے اور چلنے نیز دوسرے امور انجام دینے کی روزانہ مشق


کروائی جاتی ہے۔



لقوہ اور فالج کی حفاظتی تدابیر 


لقوہ کا مریض جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور سماجی طور سے متاثر ہوتا ہے۔ پورے عرصہ میں چوکنّا رہ کر علاج کے باوجود وہ


مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہوپاتا۔ اس میں کوئی نہ کوئی معذوری موجود رہ جاتی ہے۔ بہت زیادہ دور تک بھی جو صحتیاب ہوتا ہے


تو ۹۰فیصدی تک نارمل ہو پاتا ہے۔ مریض کو ہر ایسے قدم سے بچنا چاہیے جو آئندہ اسے دوبارہ اس حالت تک لا سکتا ہے؛ یعنی


رِسک فیکٹر سے بچاؤ۔ اپنے طبی مشیر (ڈاکٹر) کی نگرانی میں اپنے بلڈپریشر کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا رہے، ذیابیطس کا


چیک اپ اور کنٹرول رکھے، دل کے امراض کے علاج سے بے پروا نہ ہو، تمباکو نوشی یا تمباکوخوری، شراب نوشی، بسیار خوری


وغیرہ سے گریز کرے

1 comments:

Powered by Blogger.