Showing posts with label Islamic section:اسلامی سیکشن. Show all posts
Showing posts with label Islamic section:اسلامی سیکشن. Show all posts

مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں

 مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


غذا کا قوت مردمی سے گہرا تعلق ہے جو خوراک ہم روز مرہ کھاتے ہیں‘ وہی معدہ میں ہضم ہوکر خون پیدا کرتی ہے۔ پھر خون سے


مادہ تولید تیار ہوتا ہے جو زندگی کا جوہرخاص اور لذتوں کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا ایسی غذاؤں کا اہتمام رکھنا چاہیے جن سے قوت


مردمی ہمیشہ قائم رہے۔ کچھ مقوی باہ غذائیں تحریر کی جاتی ہیں۔



 کھجور مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


 کھجور کھانے سےقوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے جو بچہ پیدا ہو اس کیلئے تازہ کھجور سے بہتر کوئی غذا نہیں اگر تازہ


کھجور نہ مل سکے توخشک ہی سہی اگر کھجور سے بہتر کوئی اور چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہ السلام کو ولادت حضرت


عیسیٰ علیہ السلام کے وقت وہی چیز کھلاتا۔ سورۂ مریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ کھجور کا


تنا پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ پکی کھجوریں گر پڑیں گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ زچہ کیلئے کھجور سے بہتر کوئی غذا نہیں۔


کھجور مزاج میں گرمی اور قوت پیدا کرتی ہے۔ ابونعیم نے کتاب الطب میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھجور کو مکھن کیساتھ بہت


 عزیز رکھتے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس کو کھانے سے قوت باہ زیادہ ہوتی ہے۔ بدن بڑھتا ہے‘ آواز صاف ہوتی ہے۔



 دودھ مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


ابونعیم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے نقل کیا ہے کہ پینے کی چیزوں میں رسول کریم ﷺ کے نزدیک دودھ بہت عزیز


تھا۔ یہ قوت باہ پیدا کرتا ہے‘ معدہ میں جلد ہضم ہوجاتا ہے‘ بدن کی خشکی کو دورکرتا ہے‘ منی پیدا کرتا ہے‘ چہرہ کا رنگ سرخ


 کرتا ہے‘ دماغ کو قوی کرتا ہے۔



 شہد مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


ابونعیم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک شہد بہت پیارا اور عزیز تھا۔ حضور ﷺ


کو شہد اس لیے زیادہ محبوب تھا‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس میں شفاء ہے‘ شہد کے بے شمار فائدے ہیں‘ نہار منہ چاٹنے سے


بلغم دور کرتا ہے‘ معدہ صاف کرتا ہے‘ معدہ کو اعتدال پر لاتا ہے‘ دماغ کو قوت دیتا ہے‘ قوت باہ میں تحریک پیدا کرتا ہے‘ مثانہ


کیلئے مفید ہے‘ مثانہ اور گردے کی پتھری کو خارج کرتا ہے‘ پیشاب کے بند ہونے کو کھولتا ہے‘ فالج‘ لقوہ کیلئے فائدہ مند ہے۔


 ریاح خارج کرتا ہے‘ بھوک زیادہ لگاتا ہے‘ مکھن اور شہد ملا کر کھایا جائے تو جوڑوں کیلئے مفید ہے اور جسم کو موٹا کرتا ہے۔



 فلفل دراز مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


 جس کو چھوٹی پیپل بھی کہتے ہیں‘ مقوی دماغ‘ مقوی معدہ اور محرک باہ ہے۔ بلغم کو دور کرتی ہے‘ نگاہ کو تیز کرتی ہے‘ دودھ


میں جوش دیکر پینا بےحد مفید ہے۔



 دارچینی‘ لونگ‘ کالی مرچ مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


بڑی زبردست مقوی و متحرک باہ ہیں۔ خصوصاً بوڑھے شخص کیلئے فائدہ مند ہیں۔ اعصاب اور جوڑوں کے درد کیلئے مفید ہیں۔



 زعفران مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


زبردست مقوی باہ ہے‘ دل و دماغ اور بصارت کیلئے بھی بے حد مفید ہے۔ دوسری ادویات میں شامل کرنے سے ان کے اثرات کو تیز


اور سریع الاثرات بناتا ہے‘ مقوی معدہ‘ مقوی قلب و جگر ہے۔




[caption id="attachment_2027" align="aligncenter" width="455"]desiherbal.com-مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں desiherbal.com-مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں[/caption]

 ہریسہ مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


 ہریسہ جسم میں زبردست قوت پیدا کرتا ہے اور مقوی باہ ہے۔ ہریسہ میں کٹے ہوئے گیہوں‘ گوشت‘ گھی اور مصالحہ ڈال کر پکایا


جاتا ہے۔بعض حکماء کے نزدیک ہریسہ میں چالیس مردوں کے برابر قوت ہے۔بڑے بڑے حکماء مردانہ کمزوری کے مریضوں کو


صرف ہریسہ کھانے کی تلقین کرتے تھے۔



 پشت کا گوشت مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


ابونعیم بن عبداللہ جعفر سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ پشت کا گوشت تمام گوشت سے بہتر ہے۔ علماء نے لکھا


ہے کہ حکمت کی رو سے اس گوشت میں قوت باہ زیادہ ہوتی ہے۔ (طب نبویؐ)۔



 خوشبو مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


خوشبو کا روح انسانی سے خصوصی تعلق ہے۔ اس کا اثردل و دماغ پر فوراً بجلی کی مانند ہوتا ہے‘ خوشبو اور باہ میں گہرا تعلق


 ہے۔سفرالسادۃ میں لکھا ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں جب کوئی خوشبو پیش کرتا تو آپﷺ اس کو رد نہ فرماتے اور آپﷺ


کا فرمان ہے کہ اگر کوئی شخص خوشبو دے تو اس کو رد نہ کرے۔



 چارچیزیں مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ چار چیزیں قوت باہ کو بڑھاتی ہیں۔ 1۔چڑیوں کا کھانا۔ 2۔اطریفل کھانا۔ 3۔مغز پستہ کھانا۔ 4۔


 ترہ تیزک کھانا۔


(احیاء العلوم)



 انڈےمردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


بعض حکماء کے نزدیک انڈے بھی قوت باہ کو بڑھانے کا مؤثر ذریعہ ہیںخاص طور پر جن کو جراثیم کی کمی کی وجہ سے بے


 اولادی جیسے مرض کا سامنا ہے اگر وہ دیسی انڈے کا استعمال جاری رکھیں تو اس مرض سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔



 حسیس مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


 بعض روایات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو حسیس بہت پسند تھا۔


حسیس تین چیزوں سے مل کر بنتا ہے۔ کھجور‘ مکھن اور جما ہوا دہی۔ اس غذا سے بدن قوی ہوتا ہے اور قوت باہ میں اضافہ ہوتا


ہے۔ روغن زیتون کا کھانا اور مالش کرنا‘تل اور کھجور ملا کر استعمال کرنا‘ کلونجی‘ لوبیر وغیرہ قوت باہ کو بڑھاتے ہیں اور


متحرک باہ ہیں۔



 بالوں کادور کرنا مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


 حضرت ہزیل بن الحکیم کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’بدن سے بالوں کا جلد دور کرنا قوت باہ کو بڑھاتا ہے۔ (طب


نبویؐ) اس سے اطباء کے نزدیک زیرناف (ناف کے نیچے) بال مراد ہیں۔



 لہسن مردانہ طاقت بڑھانے کی غذائیں طب نبوی و احادیث کی روشنی میں


 امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے جمع الجوافع میں دیلمی سے روایت نقل کی ہے اور دیلمی نے حضرت علی رضی اللہ


 تعالیٰ عنہٗ سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! لہسن کھایا کرو کیونکہ اس میں بیماریوں سے شفاء ہے۔‘‘


لہسن میں بہت فوائد ہیں۔یہ ورم کو تحلیل کرتا ہے‘ حیض کو کھولتا ہے‘ پیشاب کو جاری کرتا ہے‘ معدہ سے ریاح نکالتا ہے‘ مرطوب


 مزاج والوں میں قوت باہ پیدا کرتا ہے‘ منی کو زیادہ کرتا ہے اور گرم مزاج والوں میں منی کو خشک کرتا ہے‘ معدہ اور جوڑوں کے


درد کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

ہیپاٹائٹس اور اونٹنی کا پیشاب اور دودھ و جدید سائینس

ہیپاٹائٹس اور اونٹنی کا پیشاب اور دودھ و جدید سائینس 


 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں درج ذیل حدیث مروی ہے ۔


عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 )


’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔


حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اسی حدیث کے حوالے سے اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے ۔


قارئین کرام ! بعض لوگوں کی جانب سے اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں 1)نقلاً(2)عقلاً۔


 قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاکا ذکر ہوا ہے 


إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ الْمَیتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَآ أُہِلَّ بِہِ لِغَیرِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ ۔آیت 172)


’’ تم پر مردار ،خون ، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘


 اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیا کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثنابھی کردیا ۔


فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط


’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘(سورۃ البقرۃ ۔آیت 173)


اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال کرنے کو کس نے روکاہے ؟جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے ؟


بعض لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کرتے ہیں کہ “ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ” تو گزارش ہے کہ قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔


خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیا کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اونٹنی کے پیشاب کو اس کے   دودھ میں ملاکر ایک مخصوص بیماری میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔
 کیمسڑی کے اُ صولوں کو بھی مدنظر رکھیں




[caption id="attachment_2016" align="aligncenter" width="530"]desiherbal.com-ہیپاٹائٹس اور اونٹنی کا پیشاب اور دودھ و جدید سائینس desiherbal.com-ہیپاٹائٹس اور اونٹنی کا پیشاب اور دودھ و جدید سائینس[/caption]

اگر آپ کو واقع ہی کیمسٹری کے اصول یاد ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دو مختلف کیمیکلزکے ملنے سے ایکشن اور ری ایکشن ہوتا ہے۔ یاد دہانی کے لئے میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔
پانی کے لئے H2O ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور اکسیجن کا ایک مالیکیول مل کر پانی بنتا ہے۔
نیلا تھوتھا زہر ہے اور آپ کو پتہ ہو گا کہ اگر نیلا تھوتھا کی قلمیں بنا لی جائیں تو پھر نیلا تھوتھا سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور اسے پھرکچھ بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
“سوڈیم” اسے اگر کھولیں تو ہوا سے آکسیجن ملتے ہی اسے آگ لگ جاتی ہے ، اور ” سوڈیم کلورائیڈ” جو ہم روزانہ کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو کچھ نہیں ہوتا۔
اونٹنی کے دودھ میں “ پوٹاشیم ” بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین، آئرن، فیٹ، پانی، فاسفورس ، کیلشیم، اور وٹامن سی، کیکٹوس/قدرتی مٹھاس اور ڈیوریٹک/پیشاب آور، ہوتے ہیں۔
اب دودھ کے اندر پائی جانے والے یہ کیمیکلز جن کو لال رنگ سے مارکنگ کی ہے اگر انہی کو سامنے رکھیں تو پیشاب کے پائے جانے والے ٹاکسس کے اثر کو ختم کرنے کے لیئے یہی کافی ہیں۔کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔
اس پر اگر دل میں ایک بات اور آئے تو وہ بھی کلیئر کر دیتا ہوں۔ کہ پانی کے ایک گلاس کو میٹھا کرنے کے لئے چینی کی کچھ مقدار/ ایک چمچ ڈالی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پانی کے ایک گلاس میں چینی کا ایک گلاس ڈالا جائے۔ اسی طرح دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ کے ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو سکتے ہیں اور چمچ بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہائیڈروجن کے دو مالیکول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول ان کو اکٹھا کریں تو دونوں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور اس سے جو تیسری چیز بنتی ہے جسے ہم پانی کہتے ہیں۔
 جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید


عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)


اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار  آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں


’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites)


محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں ۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان د ہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔


محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودہ اور پیشاب کو مخصوص مقدارون میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا جاسکے۔
ماخذ:۔
http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentID=2009071143333

High blood pressure ka wazifa

High blood pressure ka wazifa


pakistan main har dosra admi High blood pressure k marz main mubtala hy is ki wajah nakis ghaza aur bay waqat khana hy aur bazar ka khana hy kiyon k bazar k khanoon main nakis ghee istamal karty  hain joo vains main lum lata hy jis ki wajha vains block ho jatee hain aur High blood pressure ka marz lahaq ho jata hy  is artical main High blood pressure k wasty aik wazifa likha hy jo mujhy kisee buzurg ny atta kiya hy un ka kehna hy k High blood pressure ka yeh wazifa mera zati azmoda hy aur Allah k fazal  sy mujhy baghair duai High blood pressure k marz sy shifa hoi hy app b yakeen kamil rakh k is ko parhin inshaAllah karm ho ga

[caption id="attachment_1862" align="aligncenter" width="300"]desiherbal.com-High blood pressure ka wazifa desiherbal.com-High blood pressure ka wazifa[/caption]

وظیفہ یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر ایک پیالی میں پانی ڈال کر رکھیں۔ اول آخر درود ابراہیمی ایک ایک بار پڑھیں اور درمیان میں سورۃ یاسین پڑھیں۔ میں نے ایسا ہی کیا، ۱۹۷۸ء کے بعد مجھے دوبارہ فشار خون نہیں ہوا۔ میں نے بے شمار لوگوں کو یہ عمل بتایا۔ ان میں سے اکثریت نے اس کی تصدیق کی۔


بیٹھ کرکھانا کھانے کی سنت نبوی

 بیٹھ کرکھانا کھانے کی سنت نبوی


 زمین پر بیٹھ کرکھانا کھانے کے فوائد سائنس نے بھی مان لئے


دور جدید میں کھانا کھانے کیلئے کرسی میز کا رواج عام ہوگیا ہے اور ہمارا روایتی طریقہ جس میں چٹائی


 پربیٹھ کر کھانا کھایا جاتا تھا اب تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔ مغربی سائنسدانوں نے ایک حالیہ تحقیق میں


ثابت کیا ہے کہ کرسی میز کی بجائے زمین پر چٹائی وغیرہ بچھا کر کھانا کھانے سے صحت کیلئے بے پناہ


 فوائد حاصل ہوتے ہیں، اگرچہ ان فوائد کی فہرست بہت طویل ہے مگر چند ایک درج ذیل ہیں


 زمین پر بیٹھ کر کھانے سے کھانا بہتر طور پر ہضم ہوتا ہے کیونکہ زمین پر بیٹھنے سے جسم زیادہ آرام


دو حالت میں ہوتا ہے۔


 زمین پر بیٹھ کر کھانے سے جلدی پیٹ بھرنے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے موٹاپے کا مسئلہ


 پیدا نہیں ہوتا۔


 نیچے بیٹھ کر کھانے سے کمر، جانگھ اور ٹانگوں کے عضلات میں لچک پیدا ہوتی ہے اور دردوں سے


نجات ملتی ہے۔


 زمین پر بیٹھ کر کھانے سے آپ اپنے کھانے کے عمل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور غذا بہتر طور پر جزوِ


 بدن بنتی ہے۔


[caption id="attachment_1842" align="aligncenter" width="429"]desiherbal.com-بیٹھ کرکھانا کھانے کی سنت نبوی desiherbal.com-بیٹھ کرکھانا کھانے کی سنت نبوی[/caption]

 اکٹھے بیٹھ کر کھانے کا مقصد بھی زمین پر بیٹھنے سے بہتر طور پر پورا ہوتا ہے کیونکہ سارا گھرانہ


ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھ سکتا ہے۔ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے سے آپ کے کمر اور کندھوں کے


عضلات صحتمند رہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ چلتے ہوئے اور بیٹھے ہوئے کمر اور کندھے سیدھے


رکھتے ہیں۔


 اس طریقہ سے ٹانگوں اور کولہوں کے جوڑ کو خشکی اور کھنچاﺅ سے محفوظ رہتے ہیں۔


  زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے سے دل کی صحت بہتر ہوتی ہے اور دوران خون بھی بہتر ہوجاتا ہے جس


 کے نتیجے میں دل کی بیماریوں، خصوصاً ہارٹ اٹیک کا خدشہ بہت کم ہوجاتا ہے۔

یوسف بن تاشفین کے حالات زندگی

 یوسف بن تاشفین کے حالات زندگی


 یوسف بن تاشفین کی زندگی کے کچھ پہلووں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یوسف نے کس طرح اندلس


میں مسیحی یلغار کو روکے رکھا۔


 یوسف بن تاشفین نے 1061ءسے 1107ءتک حکومت کی۔ وہ بڑا نیک اور عادل حکمران تھا،اس کی


 زندگی بڑی سادہ تھی۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ صحرائے اعظم میں اسلام کی اشاعت اور


 اندلس میں مسیحی یلغار کو روکنا اس کے بہت بڑے کارنامے ہیں۔ شہر مراکش کی تعمیر بھی قابل فخر


 کارناموں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس نے ایک نیم وحشی علاقے میں دارالحکومت قائم کرکے


 تہذیب اور علم کی بنیاد ڈالی۔ یوسف نے تقریباً پچاس سال حکومت کی۔ اس کی قائم کی ہوئی سلطنت دولت


مرابطین (1061ءتا 1147ء) کہلاتی ہے۔ یوسف کے انتقال کے بعد یہ حکومت مزید 40 سال قائم


 رہی۔ اس کے بعد جن لوگوں کی حکومت ہوئی وہ موحدین کہلاتے تھے۔ سلطنت موحدین میں بھی کچھ


 سلاطین بڑے ہی قابل ذکر تھے ۔ جن میں ابو یوسف یعقوب المنصور اور عبدالمومن بڑے قابل ذکر نام ہیں۔


 یوسف بن تاشفین مراکش کے جنوب میں صحرائی علاقے کارہنے والا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد


 سے صحرائے اعظم اور اس کے جنوب میں خاندان مرابطین کی حکومت قائم کی اور بعد ازاں اسے اسپین


 تک پھیلادیا۔ اس نے صحرائے اعظم میں رہنے والے نیم وحشی اور حبشی باشندوں سے کئی سال تک


 لڑائیاں کیں اور اپنی حکومت دریائے سینی گال تک بڑھادی تھی۔ یہ لوگ ان قبائل کے خلاف جہاد ہی نہیں


 کرتے تھے بلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے شمار بربروں اور


حبشیوں کو مسلمان بنایا۔ تبلیغ کا یہ کام یوسف کے چچا عبداللہ بن یٰسین کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ انہوں نے


 اس مقصد کیلئے دریائے سینی گال کے ایک جزیرے میں ایک خانقاہ بنائی تھی۔


شروع میں یوسف بن تاشفین اس کام میں اپنے چچا کے ساتھ تھا لیکن بعد میں یوسف شمال کی طرف آگیا


اور یہاں فاس اور دوسرے شہر فتح کرکے کوہ اطلس کے دامن میں واقع شہر مراکش کی بنیاد ڈالی۔ اندلسی


 مسلمانوں کا وفد یوسف سے امداد لینے کے لئے اسی شہر مراکش میں آیا تھا۔


 یوسف بن تاشفین کا تذکرہ شائد جنگ زلاقہ کے بغیر ادھورا ہے اس لئے اپنے دوستوں کو جنگ زلاقہ کے


بارے بھی کچھ تفصیل بتاتے ہیں۔جب اندلسی مسلمانوں کا وفد یوسف سے مدد مانگنے مراکش آیا تویوسف


بن تاشفین اندلسی مسلمانوں کی مدد کے لئے تیار ہوگیا اور ایک طاقت ور فوج کے ساتھ اندلس روانہ ہوا۔ 1086ء میں عیسائی بادشاہ الفانسو نے ”زلاقہ“ کے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کامقابلہ کیا۔ ایک سخت


لڑائی کے بعد یوسف بن تاشفین نے الفانسو کو شکست دی۔ جنگ زلاقہ نے ایک انقلاب پیدا کردیا،عیسائیوں


کی ہمتیں ٹوٹ گئیں اور یوسف بن تاشفین نے اندلس کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان


 کو سلطنت مرابطین میں شامل کرلیا۔


اس جنگ وجوہات کچھ یوں تھیں۔ ہشام ثانی نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں ہسپانیہ میں ابھرتی ہوئی


عیسائی ریاستوں کے خلاف 52 مہمات میں حصہ لیا اور کبھی بھی شکست نہیں کھائی لیکن 1002ء


اس کے انتقال کے بعد اسپین میں مسلم حکومت کو زوال آگیا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ 1082ء میں الفانسو ششم نے قشتالہ سے اپنی تاریخی فتوحات کے سفر کا آغاز کیا۔ نااہل مسلم


حکمرانوں میں اسے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہیں تھی۔ 1085ء میں اس نے بنو امیہ کے دور کے


دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ شہر کے عظیم باسیوں نے 5 سال تک عیسائیوں کے خلاف بھرپور


 مزاحمت کی لیکن بالآخر ہمت ہار بیٹھے۔ الفانسو کا اگلا ہدف سرغوسہ کی کمزور ریاست تھی۔ مسلم


 حکمرانوں کی نااہلی کے مکمل ادراک کے بعد علماء نے شمال مغربی افریقا میں دولت مرابطین کے امیر


 یوسف بن تاشفین سے رابطہ کیا اور ان سے اندلس کی ڈوبتی ہوئی مسلم ریاست کو بچانے کا مطالبہ کیا۔


 جس پر یوسف نے تیاری شروع کردی۔


[caption id="attachment_1820" align="aligncenter" width="416"]desiherbal.com-یوسف بن تاشفین کے حالات زندگی desiherbal.com-یوسف بن تاشفین کے حالات زندگی[/caption]

   قشتالہ کے بادشاہ الفانسو ششم کو 80ہزار شہسواروں، 10ہزار پیادوں اور 30 ہزار کرائے کے عرب


فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔جبکہ یوسف کی فوج بیس ہزار کے قریب تھی۔20 ہزار مسلم افواج میں


سے شامل 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور دو ہزار پیادی) بہترین جنگجو تھے جبکہ مقامی 8 ہزار


 افواج شہسواروں اور پیادہ افواج پر مشتمل تھے۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ


کیا۔ یوسف نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں: ١۔ اسلام قبول کرو، ٢۔ جزیہ ٣۔ یا جنگ ۔


   الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔جنگ 23 اکتوبر1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے


 وقت الفانسو کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یوسف نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا پہلے دستے


 کی قیادت عباد ثالث المعتمد کررہا تھا جبکہ دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین نے کی۔ دوپہر


 تک المعتمد کی افواج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہیں جس کے بعد یوسف بن تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ


 میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیرائو کرلیا جس پر عیسائی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور


 یوسف نے سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دے دیا جس نے آخری اورفیصلہ


 کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج کے حق میں کردیا۔ مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح کا اندازہ


اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 60ہزار کے عیسائی لشکر میں سے 59ہزار 500 اس جنگ میں کام


 آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ گیا تاہم اس کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔


اس میدان جنگ کو زلاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے کیونکہ معرکے


 کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ عیسائی ذرائع اس جنگ کو


Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تاریخی فتح کے نتیجے میں اگلے 300 سال


تک اسپین میں مسلم حکومت موجود رہی۔ اگر یہ فتح نہ ہوتی تو مسلمانوں کی حکومت 1092ء میں ہی


ختم ہوجاتی۔


اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں شکست کے بعد ہی


عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔جس کا جواب بعدازاں


 صلاح الدین ایوبی نے باخوبی دیا۔

مسجد قبلتین کا تعارف

 مسجد قبلتین کا تعارف


  مدینہ طیبہ کے مغرب میں واقع جامع مسجد قبلتین تحویل قبلہ کے حوالے سے اپنا ایک منفرد تاریخی


مقام رکھتی ہے۔ اس مسجد کو مسجد قبلتین کا نام بھی ھجرت مدینہ کے دوسرے سال حضور اکرم صلی اللہ


 علیہ وسلم نے اس وقت دیا جب آپ کو دوران نماز اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنا رُخ انور بیت المقدس سے


مکہ مکرمہ کی طرف موڑنے کا حکم دیا گیا۔ یوں یہ مسجد قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) سے قبلہ دوم (مسجد


حرام) کی جانب تبدیلی قبلہ کا "ٹرننگ پوائنٹ" سمجھی جاتی ہے۔


تاریخی روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی تمنا تھی کہ آپ مسجد حرام کی طرف اپنا


رخ کرکے نماز ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنےحبیب کی یہ خواہش پوری فرمائی۔ آپ مسجد میں ظہرکی نمازکی


امامت فرما رہے تھے کہ اللہ جل شانہ نے جبریل امین کے ذریعے آپ کو اپنا رُخ مسجد اقصیٰ سے مسجد


[caption id="attachment_1816" align="aligncenter" width="257"]Desiherbal.com-مسجد قبلتین Desiherbal.com-مسجد قبلتین[/caption]

[caption id="attachment_1817" align="aligncenter" width="209"]Desiherbal.com-مسجد قبلتین-masjid qiblatain Desiherbal.com-مسجد قبلتین-masjid qiblatain[/caption]

حرام کی طرف موڑنے کا حکم دیا۔ آپ نے نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کیا۔ تب اس مسجد کا نام مسجد"


قبلتین" یعنی دو قبلوں والی مسجد مشہور ہوا اور آج تک اسی نام سے جانی جاتی ہے۔


العربیہ ڈاٹ نیٹ نے حرمین شریفین کے حوالے سے خصوصی رپورٹس کے سلسلے میں"مسجد قبلتین" پر


بھی روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مرور زمانہ کے ساتھ "مسجد قبلتین" بھی ترمیم و توسیع کے


 مراحل سے گذرتی رہی ہے۔ مسلمان خلفاء اور امراء و سلاطین مسجد قبلتین کی تزئین وآرائش میں


خصوصی دلچسپی لیتے اور فن تعمیرمیں ید طولیٰ رکھنے والے ماہرین کے ذریعے اس کی تعمیرو مرمت


 کراتے رہے ہیں۔


مسجد کی توسیع کا سب سے بڑا کام موجودہ السعود خاندان کے دور میں ہوا۔ سعودی حکومت نے مسجد


کی توسیع کے لیے 54 ملین ریال خرچ کیے اوراسے چار ہزار مربع میٹر تک توسیع دی۔ الحرمین


الشریفین کی طرح مسجد قبلتین میں بھی چوبیس گھنٹے زائرین، معتمرین اور موسم حج میں مردو


 خواتین حجاج کرام کا رش لگا رہتا ہے۔ مسجد کا ایک حصہ مستورات کے لیے مختص ہے، جہاں خواتین


دن کے کسی بھی وقت داخل ہو کرعبادت کرسکتی ہیں۔

کیا حجر اسود حادثات کا شکار ہوتا رہا ؟

کیا حجر اسود حادثات کا شکار ہوتا رہا ؟


جی ہاں تاریخ بتاتی ہے کہ کم و بیش 6 مرتبہ حجر اسود کے ساتھہ ایسے واقعیات پیش آئے جنھیں ہم


حادثات کا نام دے سکتے ہیں - حادثات کی یہ تعداد حتمی نہیں لیکن تاریخ کی کتابوں میں درج نمایاں


حادثات کی تعداد بہر حال 6 ہے - آئیے ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں


جنّت سے بھیجے گیے اس پتھر کو سب سے پہلے سیدنا ابراھیم علیہ سلام نے کعبہ مشرفہ کے اس کونے


میں نصب کیا جہاں آج بھی آپکو یہ نظر اتا ہے
1
جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبیلہ '' جرہم '' کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے


دخل ہوتے ہوے کعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ '' حجر اسود '' کو کعبہ کی دیوار


سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبوراً یمن کی جانب کوچ کر گیے


الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے تک زم زم کے کنویں میں نہیں رہا - جس وقت بنو


جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ


لیا تھا - اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کے کنویں سے بازیاب کرا لیا گیا
2
ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں  نے مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام


پر تقریباً سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی


لاشوں اور خون سے بھر دیا - اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں


رکھے جواہرات کو غضب کر لیا - اس زمانے میں عقیدت مند سونے , چاندی کی اشیا چڑھاوے اور


نذرانے کے طور پر کعبہ میں رکھتے تھے - اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر اپنے پیروکاروں میں


تقسیم کر دیا - کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا


اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذلحج 317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی


دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ '' بحرین


'' کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا


یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا - تقریباً 22 سال؛ حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا


رہا - اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام


کر تے تھے - ( استلام کے معنی لبوں سے بوسہ دینے کے بجائے دور سے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو چوم


کر ہتھیلیوں کا حجر اسود کی جانب اشارہ کرنا ہوتا ہے )


پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذلحج 339 ہجری کو'' سنبر بن حسن ''


جس کا تعلق بھی  ہی قبیلے سے تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرایا اور واپس حجر اسود کے اصل


مقام پر پیوست کروا دیا


اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت


مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں


کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطالعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو


حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا - پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے


باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا - اس سے ظاہر ہو گیا


کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے
3
سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے


اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا - اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے


کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو


اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھہ تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر


دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی


سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک '' الحاکم العبیدی ''


تھا جو ایک مظبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا - وہ اپنے ساتھہ ایک


تلوار اور ایک crowbar لایا تھا


اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ''حجر اسود '' پر لگا


ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں - وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوے کہ رہا تھا کہ ( معاذ الله


) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا تب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا - بس اس موقع پر ایک


مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر


لیا اور ان سب کو نہ صرف جہنم واصل کیا بلکہ انہیں جلا بھی ڈالا


 اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ ہتھیار کے ساتھہ مطاف


میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی - اس وقت ، اسوقت کا ایک شہزادہ '' شہزادہ نصیر ''


مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا
6
سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود


کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی


سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا - کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا - اور پھر اسے


مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی


اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل السعود نے اس


پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا


حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ


حوادث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسه دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے


ہیں آٹھہ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے جنھیں 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل


السعود کے حکم پر اب ایک خاص خوشبو والے کیمیکل میں جو خاص اسی کے لیے ہی بنایا گیا تھا ، اس


میں پیوست کر کے کعبہ کی دیوار میں رکھا دیا گیا ہے اور الحمد الله یہ آج بھی ہماری نظروں کے سامنے


موجود ہے

جادوگر کی توبہ کا سچا واقعہ

جادوگر کی توبہ کا سچا واقعہ


حضرت صاحب فرماتے ہیں ایک جادوگر کو اللّه پاک نے ہدایت دی وہ افریقہ سے تعلق رکھتا تھا اپنے عمل


سے توبہ کی اور جماعت کے ساتھ پاکستان آیا تو مجھ سے ملاقات ہوئی ۔۔


اس کا اصل نام عبدالقادر تھا روکی کے نام سے مشھور تھا ۔۔۔۔۔۔


وہ کہنے لگا کہہ میرے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا روکی تو نے اچھا نہیں کیا تونے تیس سال کا تعلق


توڑ دیا مجھ سے ۔۔۔


میں نے کہا تیرا بیڑا غرق ہو تو نے تیس سال مجھے دھوکے میں رکھا آج میں سب کچھ چھوڑ کر سچ


کے راستے پے چلنا چاہتا ہوں ۔۔۔


شیطان نے کہا ہاں نجات تو سچ میں ہی ہے مگر اتنی جلدی کیا ہے کچھ دن بعد توبہ کر لینا ۔۔۔۔


میں نے کہا اب میں تیری چال میں نہیں پھنس سکتادفح ہوجا ۔۔۔


تو شیطان رونے لگا اور جاتے جاتے کہنے لگا روکی میں صرف پانچ منٹ تجھ سے غافل ہوا تھا اور یہ


تبلیغ والے تجھے کھینچ کے لے گئے ۔۔۔۔۔۔


حضرت فرماتے ہیں اس نے ہمیں بہت سے شعبدے کر کے دیکھائے ہم دنگ رہ گئے تھے کہہ اللّه پاک نے


انسان کو کیا کیا کمالات اور کیا طاقت سے نوازہ ہوا ہے ۔۔۔۔


اللّه پاک جب ہدایت دیتا ہے تو چند لمحوں میں آنکھیں کھول دیتا ہے اور انسان کو حق اور سچ کی راہ


دیکھا دیتا ہے اور جو دھوکے میں رہنا پسند کرے اللّه پاک اس کو گمراہ کر دیتا ہے وہ سب کچھ دیکھ کر


بھی کچھ نہیں دیکھتا

بادشاہ راہب اور جادوگر کا سچا واقعہ پڑھ کر ایمان تازہ کریں

بادشاہ راہب اور جادوگر کا سچا واقعہ پڑھ کر ایمان تازہ کریں


حدیث شریف میں ہے :’’ حضرتِ سَیِّدُنا صُہَیْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللہُ


تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک بادشاہ ہواکرتاتھا جس کے پاس ایک


جادوگر تھا، جب وہ بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا: میں بوڑھا ہوگیاہوں ، لہٰذا میرے پاس کسی


لڑکے کو بھجواؤتاکہ میں اسے جادو سکھاؤں۔ چنانچہ، بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیج دیا تو وہ


اسے سکھانے لگا، لڑکے کے راستے میں ایک راہب رہتا تھا ۔ راہب کی باتیں اسے بہت اچھی لگتیں۔


چنانچہ، وہ اس کے پاس بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا ، جب وہ جادو گر کے پاس دیر سے پہنچتا تو وہ


اسے مارتا، لڑکے نے راہب سے شکایت کی تو اس نے کہا : جب جادوگر سے ڈر محسوس کرو تو کہہ دیا


کرو کہ مجھے گھر والوں نے روک رکھاتھا اور جب گھر والوں کا خوف ہو تو کہہ دو کہ مجھے جادو گر


نے روک رکھا تھا۔ ( چنانچہ یو نہی سلسلہ چلتا رہا)پھر ایک دن لڑکے نے راستے میں ایک بہت بڑا


جانور دیکھا جس نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا تواس نے دل میں کہا :آج معلوم کروں گا کہ جادو گر


افضل ہے یا راہب ؟ چنانچہ، اس نے یہ دعا مانگی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر راہب کا معاملہ تیرے نزدیک جادو


گر کے معاملے سے زیادہ پسندیدہ ہے تو اس جانور کو ہلاک کردے تاکہ لوگ گزر سکیں۔پھر اس نے ایک


پتھر پھینکااور اس جانورکو ہلاک کر دیاتو لوگ گزر گئے، اب اس نے راہب کے پاس آکر واقعہ سنایاتو


راہب نے کہا: بیٹا! آج تم مجھ سے افضل ہوگئے ہو، تمہارا معاملہ وہاں تک پہنچ گیا جس کو میں دیکھ رہا


ہوں اور عنقریب تمہاری آزمائش ہوگی جب تمہیں آزمایا جائے تو میرے بارے میں نہ بتانا ۔اب لڑکے کی یہ


کیفیت ہو گئی کہ ( اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے) و ہ پیدائشی اندھوں اور برص والوں کوشفا د ینے لگا اور


لوگوں کا ہر قسم کا علاج کرنے لگا ، بادشاہ کا ایک ہم مجلس نابینا تھا جب اس نے لڑکے کے بارے میں


سنا تو بہت سے تحائف لے کر اس کے پاس آیا اور کہا : اگر تو مجھے شِفا دیدے تو یہ سب کچھ تجھے


دیدیا جائے گا۔ اُسنے کہا: میں کسی کو شِفا نہیں دیتا، شِفا تو اللہ تَعَالٰی کے دستِ قدرت میں ہے، اگر تو اس


پرایمان لے آئے تو میں دعا کروں گااور وہ تجھے شِفا دے گا۔ چنانچہ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لایا اور اللہ


عَزَّوَجَلَّ نے اسے شِفا عطا فرمادی ، پھر وہ حسبِ معمول بادشاہ کے پاس آکر بیٹھا تو بادشاہ نے پوچھا:


تیری بینائی کس نے لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا: کیامیرے علاوہ بھی تیرا کوئی


رب ہے؟ اس نے کہا: میرا اور تیرا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ نے اسے پکڑا اور اس وقت تک


سزا دیتا رہا جب تک کہ اس نے لڑکے کے بارے میں نہ بتادیا۔پھراس لڑکے کو لایا گیا تو بادشاہ نے کہا


:اے لڑکے تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تو مادر زاد اندھوں اور برص والوں کو تندرست کردیتا


ہے، اوراب تو خوب ماہر ہو گیا۔ لڑکے نے کہا : میں تو کسی کو شِفا نہیں دیتا، بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ شِفا دیتا


ہے۔ ( یہ سن کر ) بادشاہ نے اسے پکڑا اور مسلسل سزا دیتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا پتا بتادیا۔


راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ اپنا دین چھوڑ دے تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔


بادشاہ نے آرا اس کے سر کے درمیان رکھا اور سرکے دو ٹکڑے کردیئے، پھراپنے مُصاحِب سے کہا کہ


وہ اپنا دین چھوڑ دے تو اس نے بھی انکار کر دیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھا اور اس کے دو


ٹکڑے کردیئے، پھر لڑکے کو لایا گیا اور اُس سے بھی دین چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا، اُس نے بھی انکار


کردیا۔ چنانچہ، اُسے چند آدمیوں کے حوالے کیا گیا کہ اگر یہ اپنے نئے دین سے پلٹ جائے تو ٹھیک ورنہ


اسے فلاں پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرا دینا ۔ چنانچہ، لوگ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس نے


دعا کی : اے اللہ عَزَّوَجَل! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے کفایت کر۔ چنانچہ، پہاڑ لرزنے لگا اور وہ گر


پڑے ،(اور ہلاک ہوگئے) لڑکا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھ جانے والوں نے کیا


کیا ؟کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ان سے بچالیا۔ بادشاہ نے اسے کچھ اور آدمیوں کے حوالے کیا اور کہا:


اسے کشتی میں سوار کر کے دریا کے وَسْط میں لے جاؤ اگر اپنے دین سے پھر جائے تو بہتر ہے ورنہ


اسے ( دریا میں )پھینک دینا۔ چنانچہ، وہ اُسے لے گئے،تو اُس نے دعا کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! تو جس


طرح چاہے مجھے ان سے محفوظ رکھ۔ چنانچہ، کشتی اُلٹ گئی اور وہ غرق ہوگئے، لڑکا پھر بادشاہ کے


پاس پہنچ گیا، بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھ جانے والے کہاں ہیں ؟ اُس نے کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے


ان سے بچالیا اور تو اُس وقت تک مجھے قتل نہیں کرسکتا، جب تک میری بات پوری نہ کرے، بادشاہ نے


کہا: بتا کیا بات ہے ؟ اُس نے کہا :لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی چڑھا دے


پھر میرے تَرکَش سے ایک تیر لے کر یہ الفاظ کہتے ہوئے مجھے تیر ماردے ،’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے


جو اس لڑکے کا رب ہے۔‘‘تو جب ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرسکے گا ۔


چنانچہ، بادشاہ نے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے لڑکے کو سولی پر لٹکا کر اس کے تَرکَش سے ایک


تیر لیا اور کمان میں رکھ کر’’ بِسْمِ اللہِ رَبِّ الْغُلَام‘‘ کہا :اور تیر پھینک دیا جو لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ ا س


نے اپنا ہاتھ کنپٹی پر رکھا اور اس دار فانی سے آخرت کی طرف کوچ کر گیا ۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود


لوگوں نے کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ۔جب لوگوں کی یہ حالت بادشاہ کو بتا کر کہا گیا کہ


تجھے جس بات کا خطرہ تھا اللہ (عَزَّوَجَل) نے وہ سب کچھ تیرے ساتھ کردیا ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ نے


گلیوں کے دَہانے پر خندق کھودنے کا حکم دیا۔ چنانچہ، خندقیں کھود کر ان میں آگ جلا دی گئی اور بادشاہ


نے اعلان کر دیا کہ جو شخص اپنے دین سے باز نہ آئے اُسے آگ میں ڈال د یا جائے یا اس سے کہا


جائے آگ میں داخل ہو جا! چنانچہ، لوگوں نے ایسے ہی کیا یہاں تک کہ ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ


آئی۔ وہ آگ میں داخل ہونے سے کچھ ہچکچا نے لگی تو بچے نے کہا :ماں صبر کر، تو حق پر ہے۔


( مسلم ، کتاب الزھد والرقائق، باب قصۃ اصحاب الاخدود، ص۱۶۰۰، حدیث:۳۰۰۵)

حدیث میں جس بادشاہ کاذکرہے اس کا نام زُرْعَہ بِنْ حَسَّان تھا حُمَیْر اور گردو نواح کا بادشاہ تھا اسے

یوسف بھی کہا کرتے تھے۔ (تفسیر روح البیان،پ۳۰،البروج، تحت الایۃ:۴، ۱۰/۳۸۶)


حدیث میں جس لڑکے کاذکرہوا ’’دَلِیْلُ الْفَالِحِیْن‘‘ میں اس کا نام عَبْدُ اللہ بن تَامِر بیان کیا گیا ہے ۔


(دلیل الفالحین، باب فی الصبر، ۱/۱۶۲)


( رياضُ الصالحين سے ماخوذ حدیث مسلم شریف )

Aulad narena k liyay rohani ilaj dua وظیفہ

Aulad narena k liyay rohani ilaj dua وظیفہ


Mohtaram islami bhaiyo aur behno ya  وظیفہ  Aulad e narina (Dua/ وظیفہ  for baby Boy) kay hasool kay liya bohat he akseer hain. Agar kisi aurat kay han pehlay baitiyan he hon aur ais ko khawish ho kay ais ka ghar larka paida ho to aisay chahe kay  is وظیفہ . Aulad na hone ki bohat si wajoohat ho sakti hain baz okat mard ( Husband) Aulad paida karne ka kabil nai hota baz okat aurat banjh hoti hai jis ki waja sa jora ( Couple) Aulad ki naimet sa mehroom rahta ha is k wasty hamri web site ky amraz e mardana aur amraz e zana ka visit karin

بحثیت مسلمان اس بات پر یقین کام ہونا چاہیے کہ جو کرتے ہیں اللہ ہاک ہی کرتے ہیں ۔ ہمارے بزرگان دین نے ہم اللہ پاک سے دعا کے لیئے مختلف


وظائف بتائے ہیں ۔ ان میں ایک یہ والا وظیفہ بھی ہے کہ جن عورتوں کے ہاں لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہوں اگر خدا کو منظور ہوا تو بیٹا پیدا ہوگا ۔ یہ والا


وظیفہ کوئی بہت مشکل وظیفہ نہیں ۔اس لیئے اس کو آپ آسانی سے کر سکتے ہیں اور اس  کی اجازت بھی عام ہے


[caption id="attachment_1625" align="aligncenter" width="365"]desiherbal.com-Aulad narena k liyay rohani ilaj dua وظیفہ desiherbal.com-Aulad narena k liyay rohani ilaj dua وظیفہ[/caption]

صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے

صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے


وہ مصر کا ایک امیر بزنس مین تھا ابھی اس کی عمر صرف پچاس سال کے لگ بھگ تھی کہ ایک دن اس کو دل میں تکلیف کا احساس ہوا، اور جب اس


نے قاہرہ کے سب سے بڑے ہسپتال میںاپنا علاج کرایا تو انہون نے معذرت کرتے ہوئے اسے یورپ جانے کا کہا، یورپ میں تمام ٹیسٹ مکمل کرنے کے


بعد وہاں کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ تم صرف چند دن کے مہمان ہو، کیونکہ تمھارا دل کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔


وہ شخص بائی پاس کروا کر مصر واپس آگیا اور اپنی زندگی کے باقی دن گن گن کر گزارنے لگا۔


ایک دن وہ ایک دکان سے گوشت خرید رہا تها جب اس نے دیکھا کہ ایک عورت قصائی کے پھينکے ہوئے چربی کے ٹکڑوں کو جمع کر رہی ہے۔ اُس


شخص نے عورت سے پوچھا تم اسے کیوں جمع کر رہی ہو؟


صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے


عورت نے جواب دیا کہ گھر میں بچے گوشت کھانے کی ضد کر رہے تھے، چونکہ میرا شوہر مر چکا ہے اورکمانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے اس لیے


میں نے بچوں کی ضد کی بدولت مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا ہے، اس پھینکی ہوئی چربی کے ساتھ تھوڑا بہت گوشت بھی آجاتا ہے جسے صاف کر کے پکا


لوں گی۔


صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے


بزنس مین کی انکھوں میں آنسو آگئے اس نے سوچا میری اتنی دولت کا مجھے کیا فائدہ میں تو اب بس چند دن کا مہمان ہوں، میری دولت کسی غریب


کے کام آجائے اس سے اچھا اور کیا۔


اس نے اسی وقت اس عورت کو کافی سارا گوشت خرید کر دیا اور قصائی سے کہا اس عورت کو پہچان لو، یہ جب بھی آئے اور جتنا بھی گوشت مانگے


اسے دے دینا اور پیسے مجھ سے لے لینا۔


اس واقعے کے بعد وہ شخص اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوگیا، کچھ دن اسے دل میں کسی تکلیف کا احساس نہ ہوا، تو اس نے قاہرہ میں


موجود لیبارٹری میں دوبارہ ٹیسٹ کرائے، ڈاکٹروں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق آپ کے دل میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن تسلی کیلئے آپ دوبارہ


یورپ میں چیک اپ کروا آئیں۔


صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے


وہ شخص دوبارہ یورپ گیا اور وہاں ٹیسٹ کرائے، رپورٹس کے مطابق اس کے دل میں کوئی خرابی سرے سے تھی ہی نہیں، ڈاکٹر حیران رہ گئے اور


اس سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیا کھایا کہ آپ کی بیماری جڑ سے ختم ہوگئی۔


اُسے وہ گوشت والی بیوہ یاد آئی اور اس نے مسکرا کر کہا، علاج وہاں سے ہوا جس پر تم یقین نہیں رکھتے، بے شک میرے نبی ﷺ نے سچ کہا تھا کہ


صدقہ ہر بلا کو ٹالتا ہے۔

محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا


مفتی اعظم عراق کے فتویٰ پر شاہ عراق نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے

مزارات کھول کر سلمان پاک میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

لیکن تیرہ سو سال گزرنے کے بعد آخر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے۔

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی اور تعلق قبیلہ غطفان سے تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ

وسلم کے راز دان تھے۔ آپ کے اور آپ کی والدہ دونوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے بخشش کی دعا

کی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کئی غزوات میں شریک رہے۔ عراق فتح ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی

اللہ عنہ کو نواح و جلہ کا افسر مقرر کیا۔ بتیس ہجری میں آپ نے آذربائیجان فتح کیا اور بعد میں مدائن کے حاکم بھی

بنائے گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک کی نقلیں کراکر ساری اسلامی سلطنت

میں پھیلانے کا مشورہ دیا تھا۔

حضرت جابر بن عبداللہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ صحابی ہیں۔ عقبہ ثانیہ میں والد سمیت مسلمان

ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر قرض کی ضرورت پڑتی تو آپ ہی سے لیتے۔ متعدد غزوات میں شریک رہے۔

بیعت رضوان اور حجتہ الوداع کے موقع پر بھی موجود تھے۔

٭....٭....٭
بغداد سے چالیس میل دور ایک مقام کا نام مدائن تھا جس کا موجودہ نام سلمان پاک ہے، دائیں طرف تھوڑے فاصلے پر
دریائے دجلہ بہتا ہے۔ یہاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ،حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ

عنہ کے مزارات ہیں آخر الذکر دو صحابہ کرام کے مزارات آج سے کچھ دہائیاں قبل عراق کے شاہ فیصل اول کے دور

میں دوبارہ تدفین کے بعد بنائے گئے ہیں اس سے قبل یہ دو مزارات سلمان پاک سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلہ پر

تھے۔

ایک رات عراق کے شاہ فیصل اول کے خواب میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے مزار

میں پانی اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مزار میں نمی آنا شروع ہوگئی ہے لہٰذا ہمیں یہاں سے منتقل کرکے

دریائے دجلہ سے ذرا فاصلہ پر دفن کیا جائے۔ دو راتوں تک یہ خواب شاہ عراق کو مسلسل آتا رہا لیکن وہ مصروفیات

کے سبب بھول گئے۔ تیسری رات عراق کے مفتی اعظم کو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں وہی بات کہی

اور کہا ہم دو راتوں سے بادشاہ سے کہہ رہے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں آپ بادشاہ کی توجہ دلائیں۔

مفتی اعظم نے ٹیلی فون پر وزیر اعظم نوری السعید پاشا کو صورتحال سے آگاہ کیا اور پھر وزیر اعظم کے ساتھ

بادشاہ سے ملاقات کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے حکم پر عمل کرنے پر زور دیا۔ شاہ عراق نے کہا کہ اچھا تو

پھر آپ فتویٰ دیجیے چنانچہ یہ فتویٰ شاہ عراق کے اس فرمان کے ساتھ عید الاضحی کو نماز ظہر کے بعد حضرت

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے مزارات کھولے جائیں گے۔

اخبارات میں شائع کرادیا گیا۔ فتویٰ اور فرمان کا اخبارات میں شائع ہونا تھا کہ تمام عالم اسلام میں جوش و خروش اور

ہلچل پھیل گئی۔ اس وقت کی مشہور رائٹر نیوز ایجنسی اور دیگر کے ذریعے یہ خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔

یہ حج کا زمانہ تھا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ معظمہ آئی ہوئی تھی، انہوں نے اور دنیا کے دیگر

کئی ممالک نے شاہ عراق سے درخواست کی کہ قبر کشائی عید الاضحی کے کچھ دن بعد کی جائے تاکہ وہ بھی صحابہ

کرام رضی اللہ عنہ کے جنازے میں شامل ہوسکیں۔

شاہ عراق کے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایک طرف عالم اسلام کا اصرار اور دوسری جانب مسلسل آنے والے

خواب میں جلد از جلد منتقلی کی ہدایت۔ آخر دریا کے رخ پر دس فٹ کے فاصلے پر ایک لمبی اور گہری خندق کھدوا کر

اس میںسیمنٹ اور بجری وغیرہ بھروادی گئی اور شاہی فرمان جاری ہوا کہ اب مزارات کی منتقلی عید کے دس روز بعد

کی جائے گی۔

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا


عراق کی حکومت نے اس موقع پر دوسرے ممالک سے آنے والوں پر کسٹم پاسپورٹ وغیرہ کی تمام شرائط ختم

کردیں۔ اس موقع پر مختلف ممالک کے وفود عراق آنا شروع ہوگئے۔

آخرہ وہ دن بھی آگیا جب مختلف مذاہب مسالک اور عقائد سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد اسلام کی حقانیت کو

اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے سلمان پاک میں جمع ہوگئے۔ سرکاری وفود مختلف ممالک کے سفرائ، شاہ فیصل

اور مفتی اعظم اور لاکھوں افراد کی موجودگی میں مزارات کو کھولا گیا تو واقعی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر

مبارک میں پانی اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک میں نمی آچکی تھی۔ ایک کرین کے ذریعے جس پر

اسٹریچر نصب تھا حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کو زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ ان کی نعش

خودبخود کرین پر نصب اسٹریچر پر آگئی۔ اسٹریچر کو کرین سے علیحدہ کیا گیا اور شاہ عراق، مفتی اعظم عراق،

شہزادہ فاروق والی مصر اور ترکی وزیر مختار نے اسٹریچر کو کندھا دیا اور شیشے کے ایک بکس میں رکھ دیا۔ اسی

طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بھی نعش مبارک کو نکالا گیا۔

دونوں صحابہ رضی اللہ عنہ کا کفن حتیٰ کہ ریش ہائے مبارک بالکل صحیح حالت میں تھے اور دیکھ کر ہرگز یہ نہیں

لگتا تھا کہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہ کی رحلت کو تیرہ سو سال بیت گئے ہیں بلکہ یوں لگتا تھا کہ دو تین گھنٹے

ہوئے ہیں۔

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا


سب سے حیرت کی بات جو نظر آئی وہ یہ تھی کہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں

ایک پراسرار چمک تھی۔ لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہا لیکن ان کی آنکھیں اس چمک کے

آگے ٹھہرتی نہیں تھیں اور جن آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا ان آنکھوں میں کس کی نظر ٹھہر

سکتی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر عالمی شہرت یافتہ جرمنی کے ماہر امراض چشم نے مفتی اعظم کے ہاتھ پر اسلام قبول

کرلیا۔

صحابہ رضی اللہ عنہ کی لاشیں شیشے کے بکس میں رکھی گئیں۔ رونمائی کی غرض سے چہروں سے کفن ہٹادیا گیا۔

عراقی فوج نے باقاعدہ سلامتی دی۔ مجمع نے نماز جنازہ پڑھا۔ بے شمار لوگوں نے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت

حاصل کی۔ مزارات کھلنے سے لے کر آخر تک تمام کارروائی ایک جرمن فلم ساز کمپنی نے وہاں موجود لاکھوں افراد

کو تیس فٹ لمبی اور بیس فٹ چوڑی اسکرین پر دکھائی، مزید چار بڑی اسکرین لگائی گئیں جس کے سبب تقریباً پانچ

لاکھ افراد نے یہ منظر دیکھا جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ورنہ زیارت کے شوق میں ہزاروں افراد کا

ریل پیل اور بھگڈر کے نتیجے میں جاں بحق ہونے کا خطرہ درپیش تھا۔

اس کے بعد جنازہ کو سلمان پاک کی طرف لے جایا گیا لوگوں نے راستے میں منوں پھول برسائے۔ ہر طرف اللہ اکبر

کے فلک شگاف نعروں کی گونج تھی۔ کئی جگہ راستے میں جنازے رکوائے گئے اور بالآخر دو فرلانگ کا فاصلہ چار

گھنٹے میں طے کرکے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس پہنچے۔

یہاں مختلف ممالک کے سفراءنے پھول نچھاور کیے، انہی ہستیوں نے جنہوں نے پہلے نعشوں کو کرین سے اتارا تھا۔

پورے ادب و احترام کے ساتھ پہلے سے تیار کی گئی قبروں میں سبحان اللہ اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے

درمیان سپرد خاک کیا۔

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا


بیسویں صدی کے اندر اسلام کی حقانیت کے اس شاندار معجزہ اور واقعہ کو دیکھ کر اتنے لوگ ایمان لائے کہ اندازہ

لگانا مشکل تھا۔

یہ واقعہ بلاشبہ رہتی دنیا تک دین اسلام کی صداقت کو ثابت کرتا رہے گا۔  اور یہ بات ہر جگہ گونجے گی زمیں میلی

نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا ان شاءاللہ

Mushkal waqat main یہ دعا پڑہیں

قرآنی دعائیں


اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کا فرمان ہے کہ جب بھی تم پہ مشکل وقت آئے تو فورا اللہ پاک سے رجوع کرو


اور دعا کرو دعا کے معنی ہیں پکارنا مشکل وقت میں اللہ پاک کو ان دعاوں کے ذریعے پکارنا انبیاءکرام


کی سنت بھی ہے اور افضل عم بھی ہے۔


صالح اولاد کے لیئے یہ دعا پڑہیں

.رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ


.رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ


.دل گمراہ ہو جانے کا ڈر ہو تو یہ دعا پڑہیں



.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّاب


شہادت جیسی سعادت میسر ہو تو یہ دعا پڑہیں

.رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ


 بڑی مشکل اور پریشانی میں گرفتار ہو تو یہ دعا پڑہیں

.حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ


آپ اور آپ کی اولاد نماز کی پابند رہے تو یہ دعا پڑہیں

.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ


. بیوی اور اولاد آپ سے ہمیشہ وفادار رہیں تو یہ دعا پڑہیں


.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا


  اچھے گھر کی تلاش میں ہو تو یہ دعا پڑہیں

.رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِين


شیطانی وسواس تم سے ہمیشہ دور رہے تو یہ  پڑہیں

.رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَات«الشَّيَاطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ


  جہنم کے عذاب سے ڈرتے ہو تو یہ  پڑہیں

.رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا


 اس بات کا خوف ہو کہ اللہ تعالی تمہارے اعمال قبول نہیں کرے گا تو یہ  پڑہیں

.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ


پریشان حال ہو تو یہ پڑہیں

.إنما أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّه


اپنے دوستوں اور احباب کو ان قرآنی دعاؤں سے مطلع فرمائیں، شاید کسی کی مشکل وقت میں رھنمائی

.فرماے


sachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات

 sachay islami waqiat                سچے اسلامی واقعات


 aaj hum  app kosachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات ka silsla shroo karnay messsage send kar rahay hain agg app ko yeh silsala  sachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات acha lagay to share karin

گھنے جنگل کے پار افق پر سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور سورج کی شعاعیں درختوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے جنگل کی ناہموار زمین پر بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ گویا جنگل کی زندگی میں ہر سو اجالا پھیل چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی تمام چرند پرند بھی اپنی اپنی نگاہوں میں میٹھی اور معصوم سی انگڑائی لے کر بیدار ہوچکے تھے، وہ سب اپنی سریلی اور خوب صورت آواز میں خدائے واحد کی حمد و ثناءمیں مصروف تھے۔


 sachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات


درختوں پر بسیرا کیے پرندے بھی اپنے اپنے بچوں کو بیدار کرکے گزشتہ رات کے جمع کیے دانوں سے ان کو ناشتہ کرارہے تھے، ننھے ننھے پرندوں کے بابا جان آج کے دن کے لیے راشن تلاش کرنے نکل پڑے تھے۔ جب کہ ماما جان اپنے اپنے گھونسلوں کی صفائی ستھرائی کررہی تھیں، انہی درختوں میں سے ایک درخت پر چڑیا بی اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں، بچوں کے ابا یعنی چڑے میاں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دانہ کی تلاش میں نکل پڑے تھے، معمول کے مطابق چڑیا بی نے اپنے بچوں کو نہلایا دھلایا اور دیگر کام کاج سے فارغ ہو کر اب وہ پڑوس کے درخت پر بی فاختہ کے بچوں کی طبیعت دریافت کرنے گئی ہوئی تھیں۔ بی فاختہ کے بچے کئی روز سے سرد موسم کے باعث بیمار ہوگئے تھے۔


 sachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات


جاتے جاتے چڑیا بی اپنے بچوں کو کہہ کر گئی تھیں کہ دیکھو شرارتیں نہ کرنا ورنہ شیطان کے چیلے کوے آکر تمہیں کچا کھا جائیں گے، ادھر چڑیا بی کے جاتے ہی بچوں پر کووں کا خوف طاری تھا مگر یہ ڈر ان کی شرارتی اور بے چین طبیعت پر زیادہ دیر حاوی نہ رہ سکا اور دونوں بچوں نے کھیل کود شروع کردیا۔ کھیل یہ تھا کہ دونوں بچے بیک وقت اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتے اور زمین پر آکر ایک تنکا اٹھا کر واپس گھونسلے میں لے جاتے۔ جو پہلے واپس آتا وہ جیت جاتا


دو دفعہ تنکے اٹھا کر لانے کے بعد تیسری دفعہ آخری بار مقابلہ کے لیے دونوں نے اپنے پر تولے اور زمین پر آنے لگے، ابھی وہ زمین سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ یکایک کسی چیز نے انہیں آگھیرا اور وہ دونوں ایک مضبوط شکنجے میں پھنس گئے، ننھے ننھے بچوں کے جب حواس بحال ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ دونوں کسی انسانی قافللے کے ہاتھوں جکڑ لیے گئے ہیں، جب انہوں نے سوچا کہ یہ شکاری ہمیں پکڑ کر لے جائیں گے، بس یہ جاننا تھا کہ دونوں اپنے بچاﺅ کے لیے چیخ و پکار شروع کردی۔


 sachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات


ادھر چڑیا بی کو جب کسی کی چیخ و پکار سنائی دی تو وہ پریشان ہوگئیں کہ اللہ خیر کرے کہیں یہ میرے بچے تو نہیں رو رہے، جب چڑیا بی نے اپنے درخت کے قریب آکر یہ منظر دیکھا کہ ان کے دونوں ننھے ننھے معصوم سے روئی کے گالے بچے انسانی شکار بننے جارہے ہیں تو ان سے رہا نہ گیا، حلیہ سے یہ انسان تو بہت اچھے معلوم ہوتے تھے مگر چڑیا بی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ان کے بچوں کو کیوں پکڑ لیا ہے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ ان چند آدمیوں کے گرد اپنے پر پھیلا کر ان کے سروں پر منڈلانے لگیں اور ساتھ ساستھ اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ان نیک بختوں سے نجات دلادے، یہ تو بے قصور ہیں، ابھی چڑیا بی اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ ہی رہی تھیں کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک اور شخص اس انسانی قافلہ کے ساتھ آملے۔ یہ شخص ان سب میں بہت بااخلاق، شریف اور بھلے معلوم ہوتے تھے اور اس پورے گروہ کے سردار بھی شاید یہی تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ چڑیا بی کے دو ننھے ننھے معصوم بچے ان کے ساتھیوں کے قبضے میں ہیں اور ان بچوں کی ماں پریشان ان کے گرد منڈلارہی ہے تو وہ فکر مند ہوگئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کس نے ان معصوم بچوں کو پکڑ کر بے زبان چڑیا کو تکلیف پہنچائی ہے، قافلہ کے لوگوں نے اپنے سردار کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ جب آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے تو ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، جب سے یہ چڑیا اپنے بچوں کے پیچھے ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے۔


اس قافلہ کے سردار نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً ان معصوم بچوں کو چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ساتھیوں نے فوراً حکم کی تعلیم کی اور یوں چڑیا بی نے ان کے سردار کو تشکر آمیر نظروں سے دیکھا اور خوشی خوش اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھونسلے کی جانب اڑ گئیں۔


پیارے بچو! کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک لوگ کون تھے، یہ نیک لوگ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے اور اس قافلہ کے سردارخود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔


click here for sachay islami waqiatسچے اسلامی واقعات

سونے کا تاج

آخرت میں سونے کا تاج


معاذجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک سونے کا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخص کے متعلق جو خود عامل ہو (احمد)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن ایک حافظ قرآن اپنے خاندان میں سے دس ایسے افراد کی سفارش کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی (یعنی ان کا جہنم میں جانے کا فیصلہ ہوچکا ہوگا) اور اللہ تعالیٰ اس کی سفارش قبول کریں گے اور ان دس افراد کو اس حافظ قرآن کے ساتھ جنت میں داخلہ نصیب فرمائیں گے۔ ترمذی۔ احمد
سبحان اللہ۔ یہ احادیث مبارکہ سنتے ہی میرے منہ سے بے اختیار نکلا میری آنکھوں سے آنسوﺅں کی ایک موٹی لڑی نکلی اور زمین پر گر کر جذب ہوگئی۔ آہ۔ میں کتنا بدنصیب باپ ہوں میرے بچے آہ۔ میرے نالائق بچے۔ آج میرے کسی کام کے نہیں میں نے انہیں پالا پوسا جوان کیا۔ ان کی شادیاں کیں آج جب میرے بوڑھے جسم میں طاقت ختم ہوگئی ہے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا تو میرے بچوں نے مجھے گھر سے نکل جانے کی دھمکی دے دی۔ اے خدا کاش مجھے ایسے اولاد نصیب نہ کرتا اولاد تو ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے ان کے جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے لیکن میری اولاد۔ کاش میری اولاد بھی نیک ہوتی۔ اے کاش۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے میں نے اپنا سر اوپر کیا چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو مسجد خالی ہوچکی تھی۔ شاید نمازی نماز پڑھ کر گھروں کو چلے گئے تھے امام صاحب بھی اپنی حدیثوں والی کتاب الماری میں رکھ کر جارہے تھے۔ میں بھی دیوار کے سہارے سے اٹھا اور مسجد سے باہر نکل آیا۔
گھر پہنچ کر میں سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا، کچن میں میری بڑی بہو کھانا پکانے میں مشغول تھی جب کہ چھوٹی بہو آج اپنے میکے گئی ہوتی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے جو کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔ ایک غم تھا جو کہ اندر ہی اندر مجھے کھائے جارہا تھا ایک چوٹ تھی جو کہ مجھ سے برداشت ہی نہیں ہورہی تھی۔ کاش کہ میں نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے بھی روشناس کرایا ہوتا کاش انہیں دین اسلام کی کچھ باتیں ہی سکھادی ہوتیں، انہیں زندگی گزارنے کے کچھ طریقے ہی سکھادئیے ہوتے تو شاید میرے ساتھ یہ حال نہ ہوتا۔ ہاں غلطی میری ہی تھی میں نے انہیں شروع سے ہی شہر کے اونچے اور انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرادیا تھا ان کا سارا نصاب تو انگلش میں تھا ہی ماحول بھی انگلش والا تھا گویا جیسے اردو لکھنا پڑھنا جانتے ہی نہ ہوں، بڑا بیٹا تھا جو تھوڑی بہت اردو سمجھ لیتا تھا چھوٹے کو تو بالکل ہی نہیں آتی تھی۔ گھر میں وہ میرے ساتھ بھی انگلش بولنے کی کوشش کرتے لیکن میں ان کو جواب اردو میں ہی دیتا تھا کتنا فخر تھا مجھے اپنے بیٹوں پر جب وہ انگلش بولتے تو میرا دل خوشی سے لبریز ہوجاتا اور میں جھوم جھوم کر ان کی اور زیادہ حوصلہ افزائی کرتا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے چھوٹے بیٹے نے مجھے سے انگلش میں میرا حال احوال پوچھا تو میں نے خوشی سے اسے گلے لگالیا اور ایک چھوٹا سا انعام بھی دیا، انعام لے کر وہ خوش ہوگیا لیکن آج جب یہ واقعہ یاد آیا تو میں بری طرح رونے لگ گیا ہائے میرے بچے۔ میرے بچوں نے مجھے چھوڑ دیا صاف ظاہر ہے جب میں نے انہیںانگریزوں والی تعلیم دلوائی تو انہوں نے میرے ساتھ سلوک بھی انگریزوں والا ہی کرنا تھا۔ مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے بچپن میں میرے بچوں کو اسکول سے دو بجے چھٹی ہوا کرتی تھی اور تین بچے انہیں نے اکیڈمی پڑھنے جانا ہوتاتھا اور پھر اکیڈمی سے رات گئے واپس آتے تھے میری بیوی کچھ دین دار، سلیقہ شعار اور سمجھ رکھنے والی خاتون تھی۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگی۔
صائم کے پاپا، بچوں کو قرآن مجید بھی پڑھنا چاہیے میں چاہتی ہوں کہ ہمارے بچے قرآن مجید بھی پڑھیں۔
میں اپنی بیوی کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ ان کو تو ٹائم ہی نہیں ملتا، قرآن کریم کی تعلیم وہ کیسے حاصل کریں گے۔ میں نے اپنی بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ بولی۔ بچوں کے پاس دو سے تین بجے تک کا وقفہ ہوتا ہے اس دوران قاری صاحب سے بات کر آئیں تو وہ آدھا گھنٹہ دے دیا کریں۔
مجھے یہ تجویز بھلی لگی میرے گھر کے ساتھ ہی ایک اچھا سا مدرسہ تھا میں اسے مدرسے میں گیا قاری صاحب سے ملاقات کی اور اپنے بچوں کے بارے میں ان کو بتایا اور ساتھ قرآن مجید پڑھانے کی آفر بھی کی، انہوں نے وقت پوچھا تو میں نے ان کو وقت بھی بتادیا بس وقت کا سننا تھا کہ قاری صاحب نے مجھ سے معذرت کرلی کہ ہم بچوں کو کم از کم ایک گھنٹہ پڑھاتے ہیں، اس سے کم وقت میں نہیں پڑھاسکتے، میں قاری صاحب سے آدھے گھنٹے پر ہی اصرار کرتا رہا لیکن جب وہ نہ مانے تو آخر تنگ آکر انہں نے مجھے کچھ ایسی باتیں کہیں جو کہ آج مجھے شدت سے یاد آرہی تھیں کتنی سچائی تھی ان کے کہتے ہوئے ایک لفظ میں۔ کتنی مٹھاس تھی ان کی باتوں میں ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ثابت ہورہا تھا کاش میں نے ان کی باتوں پر تھوڑا سا عمل کیا ہوتا، ان کی باتوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچا تو ہوتا جی چاہ رہا تھا کہ دوڑ کر جاﺅں اور ان کے پاﺅں چوم لوں لیکن اب تو وقت گزر گیا تھا، قاری صاحب وقت کے ساتھ ساتھ خود بھی گزر گئے تھے میں غم سے نڈھال ہوگیا اپنے آپ کو ہلکا کرلیا تھا، ہاں واقعہ قاری صاحب نے ٹھیک کہا تھا کہ دنیاوی تعلیم کو تو دیں آپ بارہ گھنٹے اور دینی تعلیم کو صرف آدھا گھنٹہ، کامیاب انسان تو وہی ہے جس کے پاس دونوں تعلیمات ہوں جتنا وہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے اتنا وہ دینی تعلیم کو بھی حاصل کرے آپ نے اپنے بچوں کو انگلش اسکولوں میں تو داخل کرایا ہوا ہے بے شک آپ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم سے روشناس کرارہے ہیں لیکن یہ تعلیم تو اس وقت تک ہمارا ساتھ دے گی جب تک ہم زندہ رہیں گے، مرنے کے بعد تو قبر میں صرف دینی تعلیم ہی کام آئے گی کل جب ہم مرجائیں گے تو ہمارے بچے ہمیں قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب تو کرسکیں گے ہمیں کفن پہنا کر دفن تو کرسکیں گے، کتنے بدنصیب ہوں گے وہ والدین جنہیں مرنے کے بعد بچوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، بچوں کو ان کی نماز جنازہ پڑھنے کا طریقہ ہی نہیں آتا ہوگا، انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ ہم نے اپنے والدین کو قبر میں کیسے اتارنا ہے انہیں کیسے نہلا کر کفن پہنانا ہے۔
ہائے استغفر اللہ، میں زار و قطار رونے لگا میں ابھی زندہ ہوں، زندہ ہونے کی حالت میں بھی میرے بچوں سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہے، بعد مرنے کے کیا ہوگا۔ قاری صاحب کی باتیں میرے دل پر تیر بن کر چبھ رہی تھیں آج مجھے معلوم ہورہا تھا کہ قاری صاحب نے وہ باتیں میرے فائدے کے لیے ہی کہی تھیں، اس وقت تو میں نے قاری صاحب کی ان باتوں پر توجہ ہی نہیں دی تھی ایک خیالی ذہن جیسی باتیں سمجھ کر واپس آگیا تھا۔ اگلے وز میں پھرقاری صاحب کے پاس نہ گیا میں اپنے بچوں کو اسکول باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ بھیجا کرتا تھا کیوں کہ مجھے معلوم تھا بلکہ میرا خیال تھا کہ میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کرکے کل کو اچھے شہری اچھے انسان بن جائیں گے میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے بڑے بیٹے کو ڈاکٹر بناﺅں گا جو کہ بڑھاپے کی حالت میں میری خدمت کرے گا چھوٹے بیٹے کو بھی کسی بڑے عہدے پر فائز کرادوںگا لیکن آج جب میری خدمت کا وقت آیا تو بچوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا اور ایسے ناطہ توڑا کہ پھر بیویوں کے ہو کر رہ گئے، بڑی بہو تو مجھے گھر میں ایک بوجھ سمجھتی تھی چھوٹی بہو جب سے بیا کر آئی تو اس نے آج تک مجھ سے بات تک نہیں کی تھی اسے تو میں شروع سے ہی برا لگنے لگا تھا میری شریک حیات بھی اس صدمے سے اس دنیا سے چل بسی تھی چھوٹے بیٹے کو تو اپنے بزنس سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی اس نے تو آج تک میری خدمت بھی صحیح طرح نہ کی ہر وقت پیسہ کمانے کے چکر میں پڑا رہتا، بڑا بیٹا بھی اپنی مصروفیت کے باعث مجھ سے نہ مل سکتا تھا اے خدائے پاک میں کیا کروں۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے میں صدمے سے پاگل ہوا جارہا تھا اسے کاش جب میں مر جاﺅں گا میرے بچوں کو اتنی بھی فرصت نہیں ہوگی کہ میری نماز جنازہ پڑھ سکیں اور مجھے صحیح طرح سے دفناسکیں اے کاش، پچھتانے کے سوا اب تو کوئی چارہ ہی نہیں وقت تو گزر گیا تھا مجھے بار بار وہ احادیث مبارکہ یاد آرہی تھی جو کہ میں نے مسجد میں سنی تھیں جس میں یہ ذکر تھا کہ قرآن مجید پڑھنے والا شخص جس پر وہ عمل بھی کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا  سونے کا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہوگی۔ آہ کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ والدین جس کے بچوں نے قرآن مجید پڑھا ہوگا۔ اسے یاد کیا ہوگا اور اس پر عمل کیا ہوگا میں ہی بدنصیب ہوں جو کہ اپنے بچوںکو قرآن کرایم نہیں پڑھاسکا۔ آج ان کی یہ تعلیم میرے کس کام کی میرے بڑے بیٹے کا ڈاکٹر بننا میرے کس کام کا کہ میں بیمار ہوجاﺅں اور وہ میرا علاج نہ کرسکے، چھوٹے بیٹے کا بزنس سنبھالنا میرے کس کام کا مجھے تو آج تک یہ بھی یاد نہیں کہ اس نے مجھ پر کچھ خرچ بھی کیا یا کوئی مجھے پھوٹی کوڑی دی ہوں حالاں کہ اس کا کاروبار کتنا وسیع تھا۔ کاش میں نے انہیں دین اسلام کی کچھ باتیں ہی سکھادی ہوتیں انہی یہ تو سمجھاد ہی دیا ہوتا تاکہ والدین کی خدمت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے کیا کیا انعامات رکھے ہیں تو شاید آج میرا یہ حال نہ ہوگا۔
اے خدا مجھے معاف فرما۔ آمین

A brave woman:ایک بہادر عورت کی داستان

A brave woman:ایک بہادر عورت کی داستان


شوال تین ہجری ہے، میدان جنگ گرم ہے،مجاہدین اور کفار کی فوج نے اپنے گھوڑوں کے قدموں اور اپنے قدموں سے میدان جنگ میں دھول اور گرد کا طوفان پیدا کیا ہوا ہے اور اس گرد کے طوفان میں نظر آرہا ہے کہ میدان کے پیچھے احد کا پہاڑ اپنی شان و شوکت سے کھڑا ہے اور اس کے دامن میں مجاہدین و کفار ایک دوسرے پر حملے پر حملے کررہے ہیں۔ تلواروں سے، تیروں سے، نیزوں سے اور پتھروں سے.... ایک طرف مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو ہے تو دوسرے طرف کفار کا لشکر تین ہار لوگوں پر مشتمل ہے، جو ہر طرح کے اسلحوں، گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ مقابلے کے لیے آئے تھے، جنگ کی اس گرمی میں جہاں حق و باطل ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے ہیں وہیں چند مسلمان سپاہیوں کی مرہم پٹی اور پانی پلانے کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ مسلمانوں نے اس بہادری سے مقابلہ کیا کہ جنگ کی ابتداءہی میں کفار کے سات بہادر جنگجو مارے گئے اور ایک یقینی فتح مسلمانوں کو نظر آنے لگی اور ایسے میں کفار میدان جنگ سے بھاگنے لگے، ان کے پیچھے ان کی خواتین جو کچھ دیر پہلے دف بجا بجا کر کفار کو مقابلے کے لیے ابھار رہی تھیں دف پھینک کر بھاگ رہی تھیں۔ مسلمانوں نے میدان میں موجود بقیہ کفار کو قیدی بنانا اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کیا۔ ایسے میں ایک پہاڑی درہ جہاں سے کفار کے حملے کا خطرہ تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو حفاظت کے لیے اس تاکید کے ساتھ مقرر کیا کہ جنگ کے حالات کچھ بھی ہوں جب تک انہیں مدد کے لیے یا مال غنیمت کے لیے بلایا نہ جائے وہ ہر گز اپنی جگہ سے نہ ہلیں۔ مگر ان تیر اندازوں نے جب میدان میں مسلمانوں کو مال غنیمت سمیٹتے دیکھا تو وہ بھی میدان کی طرف بھاگے اور اپنے کمانڈر کی بات کو بھول بیٹھے، اب اس پہاڑی درے پر کمانڈر سمیت صرف دس تیر انداز رہ گئے۔ کفار کا ایک دستہ جو بار بار درے کی طرف حملے کررہا تھا اب جگہ خالی دیکھ کر درے کی طرف لپکا اور باآسانی اس دس لوگوں سے مقابلہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا۔ اس اچانک حملے سے مسلمان بدحواس ہوکر ادھر ادھر بکھرنے لگے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز سنائی نہیں دی اور کفار نے شور مچادیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کردیے گئے۔ اب مسلمانوں کے حوصلے اور بھی کم ہوگئے مگر چند اصحاب ایسے بھی تھے جو اب بھی بھرپور لڑائی کررہے تھے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگے اور بالآخر خود جنگی ٹوپی کے اندر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرنور آنکھوں سے پہچان لیا اور یہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے اور کفار کی طرف سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں اور تلواروں کے وار کو اپنے جسم پر روکنے لگے۔ ایسے میں پانی پلانے والی عورتوں میں سے ایک عورت نے یہ منظر دیکھا تو اپنا مشکیزہ پھینک کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑیں جہاں ان خاتون کا بیٹا پہلے ہی سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں مصروف تھا۔ خاتون نے بھاگتے ہوئے ایک مشرک کی تلوار اور ڈھال جو وہ پھینک کر بھاگ رہا تھا اپنے ساتھ لے لیا اور کفار کے حملے روکنے کی کوشش کی۔ یہ خاتون ایک طرف تلوار سے بھی دشمنوں کے قریب آنے سے روکتیں تو دوسرے طرف تیر سے بھی حملے کرتیں۔ اسی دوران خاتون کے بازو پر ایک مشرک کی تلوار سے گہرا زخم لگا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو یہ تمام کارنامہ اپنی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ فوراً ان کے بیٹے کو حکم دیا کہ اپنی ماں کو سنبھالو اور ان کی مرہم پٹی کرو۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے خاندان والو اللہ تم پر رحمت کرے، اے خاندان والوں اللہ تم پر رحم کرے۔ اور خود اپنی نگرانی میں ان کی مرہم پٹی کروائی اور ان خاتون کو کہا کہ آج تم نے بہت بہادری دکھائی جس پر خاتون نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرائی۔ دعا سن کر خاتون کو بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی پروا نہیں۔ یہ بہادر خاتون جنہوں نے اپنی جان سے بڑھ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے نازک وقت میں حفاظت کی اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہادری کی تعریف کی۔ حضرت ام عمارہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کا نام نسیبہ بنت کعب تھا لیکن اپنی کنیت ام عمارہ ہی سے مشہور ہوئیںاور احد کے دن بہادری کے کارنامہ کے بعد لوگ انہیں خاتون احد کے نام سے یاد کرنے لگے۔

دنیا کا سب سے بابرکت بچہ

دنیا کا سب سے بابرکت بچہ


دنیا کا سب سے بابرکت بچہ حلیمہ اپنے ننھے بچے کو گود میں لیے پریشان بیٹھی ہے، بچہ مسلسل روئے جارہا ہے، حلیمہ ہر طرح سے اپنے ننھے بچے کو بہلا رہی تھی مگر وہ چپ نہیں ہورہا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو کوئی تکلیف ہے، قریب ہی حلیمہ کا شوہر حارث بھی پریشان نظر آرہا ہے، حلیمہ ایک نیک اور رحمدل عورت تھی اور اس کا شوہر حارث بھی ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا یہ لوگ ایک چھوٹے سے خوب صورت گاﺅں میں رہتے تھے۔ مگر بہت غریب تھے، محنت مزدوری کرکے جو کچھ حاصل ہوتا صبر شکر کرکے گزارہ کرلیتے، کچھ عرصہ سے بارش نہیں ہونے کی وجہ سے درخت اور پودے سوکھ گئے تھے، جانور بھی پانی سے محروم تھے ایسے میں نہ انہیں خود کھانے کو مل رہا تھا اور نہ ہی ان کے جانوروں کو۔
اس وقت بھی حلیمہ اور حارث کے پریشان ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ننھا عبداللہ بھوک کی وجہ سے مسلسل روئے جارہا تھا اور گھر میں جو اونٹنی تھی بھوکی ہونے کی وجہ سے اس سے بھی ایک بوند دودھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا، حارث کو پریشان دیکھ کر حلیمہ نے کہا۔ فکر نہ کرو صبح ہم لوگ شہر جائیں گے اور کچھ نہ کچھ بندوبست ہوہی جائے گا۔ وہاں کی روایت کے مطابق دراصل گاﺅں کی خواتین شہر جاتیں اور ایک ایک بچے کو گود لے لیتیں اور اسے اپنے ساتھ گاﺅں لے آتیں تھیں تاکہ گاﺅں کی خالص غذا اور تازہ آب و ہوا میں پرورش کے سات بچہ اپنی زبان پر بھی مہارت حاصل کرلے۔ اگلی صبح سویرے ہی حلیمہ نے سفر کے لیے اپنا سامان لیا اور ننھے عبداللہ کو گود میں لے کر اپنی سرمئی رنگ کی گدھی پر سوار ہوگئی، دس خواتین اور مردوں پر مشتمل یہ قافلہ شہر کی طرف روانہ ہوا، حلیمہ کی گدھی بھوکی ہونے کی وجہ سے لاغر ہوگئی تھی اور اتنا آہستہ چل رہی تھی کہ قافلے والے کافی آگے نکل جاتے اور رک کر حلیمہ کے آنے کا انتظار کرتے، حلیمہ اور حارث بہت خاموشی سے سفر کررہے تھے اسی طرح سفر کرتے ہوئے وہ لوگ شہر پہنچ گئے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ کسی بڑے گھرانے کے بچے کو گود لے۔ مگر ہوا یوں کہ پہلے پہنچ جانے کی وجہ سے ساتھی عورتوں نے اپنے اپنے مطلب کے گھر تلاش کرلیے۔ حلیمہ کے پہنچتے پہنچتے صرف ایک بچہ رہ گیا تھا۔ وہ ایک یتین بچہ تھا جسے تمام ساتھی خواتین نے نظر انداز کردیا۔ کیوں کہ بچے کا باپ وفات پاچکا تھا، بوڑھے دادا عمر کے اس حصے میں تھے جب زیادہ زندہ رہنے کی امید نہیں تھی اور جہاں تک والدہ کا تعلق تھا تو وہ بھی کچھ زیادہ مالدار نہیں تھیں، س بچے کی وراثت میں بھی کوئی بہت مال و دولت نہ تھا، غرض کہ ایک طرف ایک غریب ترین بچہ تھا اور دوسری طرف غریب ترین دائی ۔ دنیا کا سب سے بابرکت بچہ 
تمام عورتوں کو بچے مل گئے اور روانگی کی تیاریاں ہونے لگیں، ایسے میں حلیمہ نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بچہ لیے بغیر واپس جانا اچھا نہیں لگتا اس لیے میں اس یتیم بچے کو ہی لے آتی ہوں، شوہر نے جواب دیا جیسا چاہو کرو، کیا معلوم اللہ اس کے ذریعے ہی ہم پر رحمت نازل کردے۔ حلیمہ اسی وقت واپس بچے کے دادا کے پاس گئیں اور ان سے بچے کو مانگا، داد نے بچے کی والدہ کے پاس حلیمہ کو بھیج دیا، حلیمہ نے جو بچے کو دیکھا تو وہ عام بچوں سے زیادہ خوبصورت تھا، انہوں نے بچے کو گود میں لے کر اسے پیار کیا اور گود میں لیے اسے اپنی سواری کے پاس آگئیں اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ ساتھی عورتوں کی آواز آئی کہ ذرا آہستہ چلو ہمارا بھی خیال کرو، اے حلیمہ کیا یہ وہی سواری نہیں جس پر تم شہر آئیں تھی اور جسے ایک قدم چلنا بھی مشکل تھا۔ دنیا کا سب سے بابرکت بچہ
یوں یہ لوگ اپنے علاقہ بنی سعد میں واپس پہنچے، حلیمہ کے شوہر نے جب اپنی اونٹنی کو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہیں انہوں نے اس کا دودھ دوہا اور اسے خود بھی پیا حلیمہ کو بھی پلایا اور حلیمہ کے بچے اور اس یتیم بچے کو بھی۔ اس کے بعد تمام جانوروں کو چرنے کے لیے میدان میں چھوڑ دیا گیا مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہر جگہ سوکھی پڑی تھی نہ ہی کہیں سبزہ تھا اور نہ ہی پانی کی ایک بوند جانوروں کو ٹھیک طرح چارہ نہ ملنے کی وجہ سے بے چارے لاغر ہورہے تھے اور ان میں سے کوئی بھی ایک قطرہ دودھ نہیں دے رہا تھا مگر یہ کیا لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ حارث کی بکریاں بھی انہی جانوروں کے ساتھ گئی تھیں اور انہی میدانوں میں گئی تھیں جہاں دوسرے جانور گئے تھے لیکن دوسرے جانوروں کے برعکس ان بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے اور پیٹ چارے پانی سے، یہ ایک دن نہیں ہوا دوسرے دن بھی یہی ہوا، آخر تیسرے دن لوگ ایک دوسرے سے بول پڑے کہ تم اپنے جانوروں کو اسی جگہ کیوں نہیں چرانے لے جاتے ہو جہاں حلیمہ اور حارث کے جانور جاتے ہیں، مگر انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ چراہ گاہ کا کمال ہے یا کسی اور کی برکت اور یہ برکت کوئی ایک دن کی بات نہ تھی بلکہ روزانہ کا معمول تھا دودھ میں برکت اور رزق کی فراوانی، بچہ عام بچوں کی نسبت اچھی صحت اور مضبوط جسم کا تھا اور نو ماہ میں بہت صاف گفتگو کرنے لگا تھا، جب دو سال مکمل ہوئے تو بچے کو وہاں کے قاعدے کے مطابق حلیمہ اور حارث اس کی والدہ کے پاس لے گئے اور خواہش ظہر کی کہ ہماری خواہش ہے کہ یہ بچہ کچھ عرصہ اور ہمارے پاس رہے تاکہ شہر کی بیماریوں اور وباﺅں سے محفوظ رہ گئے، دراصل دونوں میاں بیوی بچے سے محبت تو کرتے ہی تھے ساتھ ہی اپنی ساری خوشحالی کا سبب اس بچے کو سمجھتے تھے،م بچے کی والدہ پہلے تو راضی نہیں ہوئیں مگر برابر اصرار کرنے پر راضی ہو ہی گئیں اور وہ دونوں بچے کو واپس اپنے قبیلے بنی سعد میں لے آئے مگر کچھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ حارث اور حلیمہ ایک دم گھبراگئے اور فیصلہ کیا کہ بچے کو جتنی جلدی ممکن ہو اس کی والدہ کے پاس پہنچادیا جائے۔ بچے کو ماں کے پاس لائے تو حلیمہ نے بہانہ کرکے بچے کو والدہ کو واپس کرنا چاہا لیکن انہیں اس بہانے سے تسلی نہ ہوئی اور دراصل وجہ حلیمہ کو بتانی ہی پڑی، اب بچہ اپنی ماں کے پااس اور چچاﺅں اور پھوپھیوں کے درمیان رہ رہا تھا کہ چند سال بعد والدہ کا سایہ اٹھ گیا، اب دادا اس کا اور بھی زیادہ خیال رکھنے لگے اور ان کی محبت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی مگر داد دن بہ دن کمزور ہورہے تھے اور ضعیفی بھی بڑھ گئی تھی اور یوں ایک دن دادا بھی اپنے لاڈلے پوتے کو چھوڑ کر اپنے رب کی طرف چلے گئے، اب اس معصوم بچے کو اس کے چچا جان اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبت سے پرورش کرنے لگے، چچا جان کی آمدنی بہت تھوڑی تھی، وہ بکریاں پال کر گزر اوقات کرتے تھے، ننھے بچے کو بکریوں کی نگرانی کے لیے ساتھ لے جاتے اور یوں ننھا بچہ اب نو سال کا ہوگیا، ایک دن سوداگروں کا ایک قافلہ شام جارہا تھا تو چچا اور ان کا معصوم بھتیجا بھی اسٍ قافلے کے ساتھ چلے گئے، راستے میں جہاں قافلے کے لوگ کچھ دیر آرام کیا کرتے تھے، ٹھیک اسی جگہ ایک عیسائی عبادت گاہ تھی جہاں ایک عیسائی عبادت گاہ کا نگراں جسے راہب کہتے ہیں رہا تھا۔ جو ان تمام دستاویزات کا محافظ بھی ہوتا تھا جو نسل در نسل اس عبادت گاہ میں چلی آرہی تھی اور یہ راہب بھی ان دستاویزات اور ان میں بیان کی گئی باتوں سے بخوبی واقف تھا۔ اب جو یہ قافلہ جس میں یہ دونوں چچا بھتیجے تھے عبادت گاہ سے ذر افاصلے پر آکر ٹہرا تو راہب نے قافلہ پر ایک نظر ڈالی اور ایک دم ہی چونک پڑا کیوں کہ جب وہ دور سے قافلے کو آتا دیککھ رہا تھا تو اسے بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس قافلے کے اوپر سایہ کیا ہوا نظر آیا تھا مگر اس نے اس محض ایک اتفاق سمجھا مگر اب جبکہ قافلہ بالکل رک چکا تھا اور مختلف درختوں کے سائے میں یہ قافلے کے لوگ آرم کررہے تھے تو ایسے ہی ایک درخت کے اوپر یہ بادل کا ٹکڑا بھی ٹھہر گیا تھا اور یہ دیکھ کر راہب جو پہلے بڑی دلچسپی سے قافلے کو آتا دیکھ رہا تھا اب ایک دم ہی چونک گیا اور پھر اس عیسائی راہب کے تجسس نے مزید زور پکڑا جو اس کے ذہن میں ایک تجویز بھی دے گیا، رابہ نے قافلے والوں کو کھانے کی دعوت دی اور کہلوایا کہ میری خواہش ہے کہ تم میں سے ہر ایک جوان، بوڑھا، غلام یا آزاد میرے یہاں کھانے کے لیے آئے، سب قافلے والے دعوت میں شرکت کے لیے عیسائی راہب کے یہاں پہنچے جیسے جیسے لوگ عبادتاہ کے اندر داخل ہورہے تھے عیسائی راہب ہر ایک چہرے کو غور سے دیکھتا لیکن جو بات وہ ان لوگوں میں تلاش کررہا تھا وہ اسے نہیں مل رہی تھی۔ غالباً تمام لوگ نہیں آئے۔ راہب کو خیال آیا میں نے کہا تھا کہ کسی کو چھوڑ کر مت آنا، راہب نے قافلے والوں سے کہا، ایسا کوئی بھی نہیں ہے جسے ہم نے پیچھے چھوڑا ہو سوائے ایک لڑکے کے جو ہم میں سب سے چھوٹا ہے۔ 
قافلے والوں نے جواب دیا۔ اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ کرو اور اسے بلاﺅ اس کا یہاں آنا ضروری ہے۔ راہب نے قدرے ناراضگی سے کہا جس پر قافلے والوں کو شرمندگی کا احساس ہوا اور وہ لڑکے کو دعوت پر بلالائے، لڑکے کے چہرے پر ایک نظر ڈال کر ہی راہب کو اپنی تلاش مل گئی، کھانے پینے کا سلسلہ شروع ہوا، راہب لڑکے کے چہرے کا جائزہ لیتا رہا، کھانے کا سلسلہ ختم ہوا تو راہب کم عمر مہمان کے پاس بیٹھ گیا اور مختلف سوالات کرتا رہا نو عمر لڑکا بڑے مناسب اور صاف گوئی سے جوابات دیتا رہا اور کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کی، اس نے اس کی عبا کاندھے سے اتار کر پیٹھ دیکھنے کی خواہش کی۔ اسے بچے کی باتوں سے یقین آگیا تھا مگر مطمئن ہونا چاہتا تھا۔ بچے کی پیٹھ پر نشان دیکھنے کے بعد راہب نے اس کے چچا سے سوال کیا بچے سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟
چچا نے جوں کہ اپنی اولاد سے بڑھ کر اس کی پرورش کی تھی اس لیے جواب دیا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ تمہارا بیٹا نہیں ہے۔ راہب نے پورے یقین سے کہا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا باپ زندہ ہو۔ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔ چچا نے جواب دیا۔ پھر اس کا باپ کہاں گیا۔ راہب نے ایک اور سوال چچا سے کیا۔ وہ انتقال فرماگئے تھے جب اس کی پیدائش نہیں ہوئی تھی۔ یہ بالکل سچ ہے، راہب نے فوراً تصدیق کی‘ اپنے بھائی کے بیٹے کو فوراً اپنے ملک لے جاﺅ اور یہودیوں سے بچا کر رکھو۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اسے دیکھ لیں اور جو کچھ میرے علم میں ہے۔ وہ بھی جان جائیں تو اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے تمہارے بھائی کے اس بیٹے کے لیے قدرت نے اپنے خزانہ میں بڑی عظمیں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ راہب نے اپنی تعلیمات کے مطابق صاف صاف چچا جان کو ہر بات بتائی۔ دنیا کا سب سے بابرکت بچہ
اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس لڑکے کو اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللی علیہ وسلم کی حیثیت سے منتخب کیا۔ جی ہاں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پیارے نبی جنہوں نے اپنی تمام زندگی اس فرض کو انجام دینے میں لگادی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھیجا تھا اور اب یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر موجود ہے۔

Heart attack:​دل کےدورہ کی وجوہات اور علاج نبوی


Heart attack     :​​دل کےدورہ کی وجوہات اور علاج نبوی





سینےمیں محسوس ہونے والا یہ جان لیوا درد عام طور پر ناگہانی طور پر شروع ہوتا ہے اور پھر بڑھتا جاتا ہے‘ بنیادی طور پر یہ دل کو خون مہیا کرنے والی شریانوں کی بندش ہے کبھی تو یہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے ا ور کبھی فوراً ہی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حیوانی ذرائع سے حاصل ہونے والی چکنائیاں دل کی نالیوں کو بند کردیتی ہیں۔ سگریٹ پینے والوں کو دل کے دورہ کا اندیشہ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے‘ آرام طلبی‘ تفکرات اور بسیار خوری کو دل کی بیماریوں کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔

دل کے دورے کی سب سے بڑی علامت درد ہے یہ درد کبھی اتنا شدید ہوتا ہے کہ مریض تڑپنے لگتا ہے ایک امریکن اخبار نویس نے اپنی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے بتایا’’ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چھاتی کے اندر لوہے کا جلتا ہوا کوئلہ رکھ دیا گیا ہے‘‘ درد کا آغاز عام طور پر چھاتی کے وسط میں سامنے کی طرف سے ہوتا ہے پھر یہ دائیں اور بائیں بازو میں بھی محسوس ہونے لگتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہاتھ بھاری ہوگئے ہیں اور انگلیوں میں سوئیوں کی چبھن محسوس ہوتی ہے یہاں سے درد گردن کے پیچھے کندھوں کے درمیان بھی چلا جاتا ہے‘ چلنے پھرنے سے درد میں اضافہ ہوتا ہے۔
مریض کو ٹھیک سے سانس نہیں آتا‘ سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے کبھی کبھی اصل تکلیف صرف سانس میں تنگی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
اکثر مریضوں کو شدید متلی ہوتی ہے کئی مریضوں میں صرف یہی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ دل کو خون کی بہرسانی کی بندش صدمہ کی شدید کیفیت پیدا کردیتی ہے‘ ٹھنڈے پسینے آنے لگتے‘ بے قراری‘ گھبراہٹ‘ کمزوری‘ پریشانی اپنی انتہا تک چلے جاتے ہیں‘ بلڈپریشر میں دورہ کے دوران اضافہ ہوسکتا ہے لیکن عام طور پر بعد میں کم ہوجاتا ہے۔



دل کا دورہ اور فرمان نبوی


دل کے دورے کو نبی اکرم ﷺ نے بڑی اہمیت عطا فرمائی ہے فرمایا: ’’تمہارے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ تندرست ہو تو سارا جسم تندرست رہتا ہے اور جب وہ بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم بیمار ہوجاتا ہے اور یہ لوتھڑا دل ہے۔ ‘‘(مسلم‘ بخاری)



آپ ﷺ نے دل کی بیماریوں سے بچنے اور ان کے علاج کے متعدد اسلوب عطا فرمائیں ہیں۔


نبی اکرم ﷺ نے دل کی بیماریوں کے علاج اور بچاؤ کیلئے غذا میں ایسے عناصر کی نشاندہی فرمائی ہے جن کو کھانے سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اگر وہ بیمار ہوں تو تندرستی حاصل ہوتی ہے ان غذاؤں میں سب سے اہم جو کا دلیہ ہے۔



جو کا دلیہ


نبی اکرم ﷺ نے جو کے فوائد میں دو اہم باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ٭ مریض کے دل سے بوجھ کو اتار دیتا ہے۔ ٭ غم اور فکر سے نجات دیتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ’’دل کے مریض کیلئے تلبینہ تمام مسائل کا حل ہے یہ دل سے غم کو اتار دیتا ہے۔ (بخاری‘ مسلم)


جو کا دلیہ پہلے پانی میں پکا لیا جائے پھر ضرورت اور ذائقہ کے مطابق دودھ اور شہد شامل کیا جائے اسے تلبینہ کہتے ہیں۔
آپ کی گرامی رائے میں بیمار کیلئے دلیہ سے زیادہ کوئی مفید اور قوت بخش غذا نہ تھی وہ اسے دن میں کئی بار گرم گرم کھلاتے تھے۔ جو کا دلیہ بیمار کی کمزوری اور اس کے جسم کی قوت مدافعت کو بڑھانے کیلئے تجویز فرمایاگیا لیکن اس کی اصل اہمیت دل کی بیماریوں کو دور کرنے کیلئے قرار پائی ‘ وہ دل کے جملہ عوارض میں جو کے دلیہ کے بہت قائل تھے۔ وہ مریض کو جو کے دلیہ میں شہد ڈال کر کھلانا پسند فرماتے تھے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خون سے کولیسٹرول کو نکالنے کی سب سے اہم اور مجرب دوا جو کا دلیہ ہے۔ اس میں مفید عناصر کی ایک معقول مقدار پائی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ چکی کا بنا ہوا جو کا دلیہ استعمال کیا جائے۔ جو کا دلیہ ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہے۔ جو بطور روٹی‘ دلیہ‘ ستو اور اس کا پانی بنا کر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
شہد: کمزوری دور کرنے کیلئے شہد قدرت کا انمول تحفہ ہے‘ خون کی نالیوں کو کھولتا ہے‘ اعصاب کو طاقت دیتا اور دل کے عضلات پر سے بیماری کے اثرات کو اتارتا ہے‘ دل کی بیماریوں کے علاج کیلئے 4-6 بڑے چمچ ایسے وقت میں لینے مفید ہوں گے جب پیٹ خالی ہو۔ بند نالیوں کو کھولنے کیلئے نبی اکرم ﷺ نے شہد کو ابلے پانی میں دینا پسند فرمایا ہے۔



بہی


نبی اکرم ﷺ کے دست مبارک میں ایک روز بہی کا پھل تھا اس واقعہ کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’انہوں نے پھل مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ دل کی تکلیف (دورہ) کو دور کردیتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ) دل کے دورہ اور اس کی گھٹن کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے کئی مرتبہ خوشخبری سنائی ’’سفرجل (بہی) کھاؤ کہ یہ دل کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور سینہ کی گھٹن کو دور کرتا ہے۔ (ابونعیم‘ ابن النسی)


ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بہی کی بہترین قسم اس کا مربہ قرار دیا ہے بہی کو نہار منہ کھانا چاہیے شہد کے شربت کے ساتھ ایک سے دو قاشیں ناشتے سے پہلے کھالی جائیں۔



کھجور


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ ایک روز بیمار ہوگئے وہ اپنی روئیداد یوں سناتے ہیں۔ ’’میں بیمار ہوا میری عیادت کو رسول پاک ﷺ تشریف لائے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا تو اس ہاتھ کی ٹھنڈک میری پوری چھاتی میں پھیل گئی‘ پھر فرمایا کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے‘ اسے حارث بن کلدہ کے پاس لے جاؤ جوثقیف میں مطب کرتا ہے حکیم کو چاہیے کہ وہ مدینہ کی سات عجوہ کھجوریں گٹھلیوں سمیت کوٹ کر اسے کھلائے۔‘‘ (داؤد‘ احمد‘ نعیم)
دل کے دورہ میں کھجور کو گٹھلی سمیت کوٹ کر دینا جان بچانے کا باعث ہوتا ہے۔ احادیث میں اس غرض کیلئے عجوہ کھجوریں تجویز کی گئیں ہیں تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اس غرض کیلئے دوسری کھجوریں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں مگر ان کا عرصہ استعمال طویل ہونا چاہیے۔



زیتون کا تیل


’’زیتون کا تیل کھاؤ اور لگاؤ کیونکہ اس میں ستر بیماریوں سے شفاء ہے جن میں سے ایک جذام بھی ہے۔‘‘ ابونعیم


قلب کی حفاظت کیلئے وٹامن ای کا استعمال ضروری ہے‘ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق زیتون کے تیل کو اس اعتبار سے سورج مکھی‘ مکئی اور نہ جمنے والے تیلوں پر فوقیت حاصل ہے وٹامن ای چربی میں شامل ہوکر مغز قلب کولیسٹرول ایل ڈی ایل کو بے اثر کردیتا ہے۔ جو خوراک قلب دوست روغن زیتون سے بھرپور ہوتی ہے وہ خون میں زیادہ کثافت والی روغنیات ایل‘ ڈی‘ ایل کو بڑھانے میں بہت مفید ہیں جوکہ خون کی نالیوں میں روغن کو منجمد کرنے اور دل کی شریانوں کی بیماری میں حفاظتی عنصر ہے۔ اس کا استعمال بلڈپریشر کو کنٹرول میں رکھتا ہے‘ قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے‘ زیتون کا تیل ایک ایسی چکنائی ہے جو دوسری چکنائیوں کو بھی ہضم کرتی ہے۔

Powered by Blogger.